
بات کہاں تک جائے گی؟ .. روشن لعل
روشن لعل
پاکستان میں اس وقت جو ارتعاش، ہلچل اور افراتفری نظر آرہی ہے اس کے متعلق بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اگر یہ اسی طرح ہوتا رہا تو پھر سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا ۔ اس کے برعکس ایک حلقے کے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ حالیہ افراتفری اور ہلچل صرف آنکھوں کا دھوکہ ہے کیونکہ ارتعاش تو صرف ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح پر ہے جبکہ گہرائی میں جو کچھ عرصہ دراز سے موجود ہے وہ وہاں جوں کا توں پڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے متعلق یہ دونوں خیالات ایک دوسرے کے برعکس ہونے باوجود ایسے نہیں ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو یکسر نظر انداز کر کے دوسرے کو اہم سمجھ لیا جائے۔ قانون فطرت کے مطابق اس جہاں میں ثبات حالانکہ صرف تغیر کو ہے مگر وطن عزیز کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کئی چیزوں بیک وقت متغیر اور جمود کا شکار سمجھ لیا جاتا ہے او ر کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کیا جامد اور کیا تغیر پذیر ہے۔
اب عدلیہ کو ہی دیکھ لیں، توہین عدالت کو جواز بنا کر جس طرح عمران خان کو آناً فاناً سہولتیں فراہم کی گئیں اس کی تشریح ایک حلقہ یوں کر رہا ہے کہ ہماری عدلیہ اب پہلے جیسی نہیں رہی بلکہ یکسر تبدیل ہو چکی ہے ۔ توہین عدالت کے جواز کے تحت اگر ایک طرف عمران خان کے لیے سہولتیں موجود ہیں تو دوسری طرف اسی جواز کے تحت میاں شہباز شریف کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ بات بعض لوگوں کے لیے حیران کن نہیں بلکہ حسب معمول ہے کہ کافی عرصہ سے یہاں عدالتیں جس جواز کے تحت عمران خان کے لیے سہولتیں پیدا کر تی ہیں اسی جواز کے تحت ان کے سیاسی مخالفوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ عمران خان قبل ازیں جس لب و لہجے میں عدلیہ اور منصفوں کی توہین کرتے رہے اس کے ناقابل تردید شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔ منصفوں کا انصاف یہ ہے کہ توہین کے مذکورہ ناقابل تردید شواہد کے باوجود عمران خان کے لیے ایسے فیصلے سامنے آتے رہتے ہیں کہ ان کے لیے’’ لاڈلے‘‘ کی عرفیت کا استعمال شروع ہوگیا جبکہ ان کے سیاسی مخالف نواز شریف کو پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے کر صادق و امین ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ میاں نوازشریف کی صادق و امین حیثیت پر کئی شکوک و شبہات موجود تھے مگر جس فیصلے کے تحت انہیں عمران خان سمیت ہر نوع کے صادق و امین اراکین پارلیمنٹ کی صف سے نکالا گیا اسے کسی طرح بھی مبنی بر انصاف فیصلہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے نوازشریف کو صادق و امین نہ مانتے ہوئے نااہل قرار دیا گیا اور اب شہباز شریف کو ممکنہ توہین عدالت کیس میں نااہل قرار دینے کی تیاریاں مکمل سمجھی جارہی ہیں۔ اس ممکنہ نااہلی کے پیش نظر یہ کہا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کو تو بغیر کسی سخت رد عمل کے تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن اس مرتبہ اگر شہباز شریف کو بھی کسی اور کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے نااہل کیا گیا تو پھر بات کسی اور طرف چلی جائے گی۔ میاں شہباز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد بات کہاں تک جاتی ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر توہین عدالت کا جو جواز ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اس کا پس منظر یہاں ضرور بیان کیا جاسکتا ہے۔
اگر توہین عدالت کے تصور کا پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ اس کی پیدائش بادشاہوں، شہنشاہوں ، راجے مہاراجوں اور مطلق العنان آمروں کے درباروں میں ہوئی۔ ان حکمرانوں نے اپنے ادب کی حد مقرر کرتے ہوئے رعایا پر لازم قرار دیا تھا کہ وہ بادشاہ کی زبان سے نکلے ہوئے ہر حکم کو جواز کے ترازو میں تولے بغیر حرف آخر سمجھے۔ ایسے حکمرانوں نے حد ادب سے تجاوز کرنے والوں کے لیے موت تک کی سخت اور ظالمانہ سزائیں مقرر کر رکھی تھیں۔ سخت اور ظالمانہ سزائوں کے باوجود شاہی درباروں کے احکامات اور فیصلوں کی حکم عدولی کے واقعات سامنے آتے رہے۔ حکم عدولی کرنے والوں کے باغیانہ افکار اور قربانیوں کی بدولت اس تبدیلی کا عمل شروع ہوا جو ارتقائی منازل طے کرتی ہوئے اب کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ تبدیلی کا یہ تسلسل آخر کار جابرانہ طرز حکمرانی کی تبدیلی پر منتج ہوا۔ عدالتیں شاہی فرمانوں کے اثرات سے آزاد اور شاہی درباروں سے باہر منتقل ہونا شروع ہوئیں۔ شہنشاہیت سے جمہوریت کی طرف تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا تصور وجود میں آیا۔ انسانی حقوق کا احساس پیدا ہوا۔ اس احساس کے زیر اثر انسانی حقوق کے تعین کا عمل شروع ہوا۔ ارتقائی عمل کے ہر مرحلے میں باغیانہ اور اختلاف پر مبنی اظہار رائے نے تبدیلی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اسی بنا پر آزادی اظہار کے حق کو بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر میں سر فہرست درجہ دیا۔ اس ارتقائی عمل کے دوران ترقی یافتہ معاشروں میں آزادی اظہار جیسے انسانی حق کے تحفظ کے لیے عدلیہ سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے آزاد عدلیہ کا وجود لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔ آزادی اظہار کے حق کو ناقابل سمجھوتا سمجھنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کو بھی ضروری قرار دیا گیا۔ پاکستان جیسا ملک جہاں ججوں کی تعیناتی، ان کے رہن سہن ، طرز زندگی، رویوں اور فیصلوں کو کبھی بھی بین الاقوامی میعار کے مطابق نہیں سمجھا گیا وہاں عدلیہ کے احترام کو اس قدر اہمیت دے دی گئی کہ آزادی اظہار کے مسلمہ حق کے باوجود عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید اور انکی حکم عدولی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ شہنشاہوں کے درباروں سے آزاد عدلیہ کے ایوانوں تک کا سفر باغیانہ اظہار رائے کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا، آزاد عدلیہ کے ایوان اگرچہ شاہی درباروں سے حد درجہ مختلف ہیں مگر پاسکتان میں ان دونوں میں یہ قدر بھی مشترک ہے دونوں کی ادب حدیں اور توہین کی سزا مقرر ہے۔ عدلیہ کی توہین پر سزا کا تصور صرف پاکستان میں ہی نہیں بیرونی اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی موجود ہے۔ البتہ پاکستان اور ترقی یافتہ دنیا کی عدالتوں میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں عدالتوں کو انسانی حقوق صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ان سامنے عمران خان جیسے کسی بندے کا کیس آتا ہے مگر ترقی یافتہ دنیا میں عدالتوں کا معیار یہ ہے کہ ان کے کردار کی وجہ سے انہیں بلا شبہ ہر خاص و عام کے انسانی حقوق محافظ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں عدالتوں کے جابندارانہ فیصلوں کی وجہ سے ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیںکہ عدالتوں کے احترام کے واضح احکامات کے باوجود یہاں لوگ آزادی اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات عدالتوں اور ان کے فیصلوں پر اس حد تک جائز تنقید کر جاتے ہیںکہ انہیں سبق سکھانے کے لیے ان پر توہین عدالت کا قانون لاگو کر دیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں میاں شہباز شریف کی حکومت اور عدلیہ پوری طرح آمنے سامنے نظر آرہے ہیں۔، اس ٹکرائو کی وجہ سے میاں شہباز شریف پر خصوصی اور ان کی کابینہ پر عمومی طور پر توہین عدالت کی حد لاگو ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں بات کہاں سے کہاں تک جاتی ہے یہ آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔