Editorial

مفت آٹا اور سستا پٹرول

رمضان المبارک میں غریبوں کو مفت آٹا کی فراہمی کے لیے وفاقی اور پنجاب حکومت نے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب میںرمضان ریلیف پیکیج کے تحت60ہزار روپے سے کم آمدن والے ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ایک خاندان رمضان المبارک کے دوران شناختی کارڈ کے ذریعے 10 کلو آٹے کے 3 تھیلے فری لے سکے گا۔ پیکیج سے قریباً پنجاب کی 90فیصد آبادی مستفید ہو گی۔ مخصوص کریانہ سٹورز، ٹرکنگ پوائنٹس اور یوٹیلٹی سٹورز پر مفت آٹا دستیاب ہوگا۔ مفت آٹے کی فراہمی کا آغاز 25شعبان سے کیا جائے گا اور یہ پیکیج 25رمضان المبارک تک جاری رہے گا۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کے لیے رمضان میں مفت آٹا کی فراہمی کا پیکیج تیار کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت دیگر صوبوں کو بھی اس پروگرام میں معاونت فراہم کرے گی۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے موٹرسائیکل اور رکشہ والوں کو سستے پٹرول کی فراہمی کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور وزیراعظم کی ہدایت پر موٹرسائیکل، رکشہ والوں کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کا پروگرام تیار کر لیا گیاہے۔ وفاق اور پنجاب نے رمضان ریلیف پیکیج کے تحت ساٹھ ہزار روپے ماہوار سے کم کمانے والوں کو شناختی کارڈ کے ذریعے 10 کلو آٹے کے 3 تھیلے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیاہے۔ وزیراعظم پاکستان نے موٹر سائیکل اوررکشہ والوں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے اقدام سے رمضان المبارک کے دوران غریب اور مستحق گھرانوں کو مفت آٹا دستیاب ہوگا اور انتظامی مشینری کو ہدایت کی گئی ہے کہ طویل قطاروں اور انتظاروالی صورت حال پیدا نہ ہو اِس کے لیے انتظام کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سستے آٹے کی فراہمی سے بلاشبہ عوام کی اکثریت استفادہ حاصل کرے گی اور یہی رقم بچت کی صورت میں کسی اور مد میں کام آئے گی اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی تحسین کی جانی چاہیے اوریقیناً اگر آٹا کی دستیابی اور عزت سے فراہمی یقینی بنائی گئی تو عوام دونوں حکومتوں کے شکر گذار ہوں گے، مگر اِس کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ دونوں حکومتیں خصوصاً صوبائی حکومت اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب یقینی بنائیں کہ اِس بار ذخیرہ اندوز اور گراں فروش عوام کا استحصال نہ کرپائیں۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہر سال آتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں دولت کی ہوس اور لالچ اِس حد تک سرائیت کرچکا ہے کہ رحمتوں اور
برکتوں کے اِس مہینے میں رات بھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرنے اور سربسجود ہونے والوں کا انہی کی صف میں کھڑے ہوئے افراد دن کے اوقات میں ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کے ذریعے استحصال کرتے ہیں، یعنی لُٹنے اور لوٹنے والے دونوں ہی اِس بابرکت مہینے کی فضلیت اور اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں مگر مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے لوٹنے والے اپنے قیام اور عبادات کو اپنے اِس فعل کی وجہ سے نہ صرف ضائع کردیتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اشیا کی دستیابی معمول کے مطابق ہوتی ہے لیکن تجوریاں بھرنے کے لیے مصنوعی قلت کی صورت حال پیدا کردی جاتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان جب جب ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب ہوئے انہوں نے رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، سستے رمضان بازار بھی اُن کی ہی کوشش تھی۔ جب معاشروں میں پیسے کی ہوس اور لالچ اخلاص اور انسانیت کو روند کر اوپر آجائے تو معاشرے تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں اور افسوس کہ ہمارے یہاں ایسا ہورہا ہے، غیر مسلم ممالک میں کرسمس اور ایسے تہواروں پر ہر شے کی قیمت کم اور منافع قریباً ختم کردیا جاتا ہے تاکہ غریب اور متوسط لوگ بھی خوشیوں میں شامل ہوسکیں پھر مسلمان ممالک میں رمضان المبارک میں خصوصی طور پر اشیائے ضروریہ ہی نہیں بلکہ استعمال کی ہرچیز کی قیمت کم کردی جاتی ہے وہاں بھی یہی خواہش اور نیت ہوتی ہے کہ کم آمدن و محدود وسیلہ لوگ رمضان المبارک اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمارے اِس عمل سے راضی ہو مگر ہمارا ملک جو عالم اسلام میں پہلا ملک ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا یہاں سال بھر تو ہر جگہ لوٹ مار، زخیرہ اندوزی کا بازار گرم رہتا ہی ہے مگر رمضان المبارک میں صورت حال بد سے بدترین ہوجاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو مفت آٹے کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یقینی بنانا چاہیے کہ ذخیرہ اندوز اور گراں فروش عام کم وسیلہ اور سفید پوش شہریوں کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں نہ بھرسکیں، بہرکیف جب سستے آٹے کی فراہمی شروع ہوگی اور عام شہریوںکو باعزت طریقے سے دستیاب ہوگا تبھی وفاقی اورصوبائی حکومت کی اِس بڑی کاوش پر مزید روشنی ڈالی جاسکتی ہے اورجہاں تک موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ والوں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے پروگرام تیار کرنے کی ہدایت کی ہے تو اِس معاملے پر بھی منتظر ہی رہا جاسکتا ہے کیونکہ ماضی میں کئی حکومتوں نے ایسے اعلانات کیے اور ریاست کے سربراہان نے اسی طرح محکموں کو متحرک کیا لیکن وہ ایسے متحرک ہوئے کہ داستان ہی نہ رہی، داستانوں میں ۔ موجودہ حکومت کے دور میں جب مفتاح اسماعیل بطور وفاقی وزیرخزانہ معاشی میدان میں تھے، ان کی موجودگی میں ہونے والے ایک اجلاس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ موٹرسائیکل سواروں کو ریلیف دیا جائے کیونکہ مڈل کلاس کے لیے مشکل حالات ہیں، لہٰذا اُس وقت کے بعد اب ایک بار پھر موجودہ حکومت نے اعادہ کیا ہے تاکہ مہنگے ترین ایندھن کا متوسط طبقے پر پڑنے والا بوجھ کچھ کم کیا جائے مگر دیکھتے ہیں کہ اِس بار حکومت اِس اہم اور نیک کام میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور آئی ایم ایف حکومت کو پٹرول سستا اور آٹا مفت فراہم کرنے پر کیا کہتا ہے؟ کیونکہ واضح رہنا چاہیے کہ جتنی بنیادی اشیا ضروریہ سے سبسڈی واپس لی گئی ہے وہ بحکم آئی ایم ایف ہی واپس لی گئی ہے، ایندھن کی قیمت بڑھنے سے لیکر یوٹیلٹی سٹورز اور اِس جیسے دیگر منصوبوں بالخصوص بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ اِنہی احکامات کا نتیجہ ہے جو آئی ایم ایف وقفے وقفے سے جاری کررہاہے، پس آٹا مفت فراہم کرنا اور متوسط طبقے کو سستا پٹرول فراہم کرنا بادی النظر میں آئی ایم ایف سے بالا اور داخلی فیصلہ ہی معلوم ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ مخالف سیاست دان اِس کو سیاسی سٹنٹ قرار دے رہے ہیں کہ 30اپریل کو پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے اور ایسے جزوقتی اقدامات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی جیسا کہ ضمنی انتخابات کے دوران میں پنجاب میں مخصوص صارفین کے لیے مفت بجلی کی فراہمی کا اعلان کیاگیا تھا لیکن اُس پربوجوہ عمل نہ ہوسکابہرکیف ہر عمل کو اچھی نیت اور اچھی سوچ کے ساتھ ہی سوچنا چاہیے تبھی معاشرے میں اچھائی فروغ پاتی ہے۔ اگرچہ موجودہ معاشی صورت حال میں کسی طبقے کو سبسڈی دینے ممکن نہیں رہا لیکن اگر طبقات کو معاشی لحاظ سے تقسیم کرلیں تو یقیناً کم آمدن افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جاسکتی ہے جیسا کہ کم آمدن والے خاندانوں کو مفت آٹا اور پھر سستا پٹرول دینے کا منصوبہ ہے، لہٰذا خواہ وہ آٹا، چینی، گھی ، پٹرول یا کسی بھی مد میں ہو، کیونکہ کم آمدن اور کم وسیلہ طبقات پر مکمل معاشی بوجھ لادنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ ویسے تو منقسم معاشرہ ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے مگر ہمارے موجودہ معاشی حالات معاشرے کو معاشی لحاظ سے تقسیم کرنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ کم ازکم یہ ضرور مدنظر رکھا جائے کہ امرا اور سفید پوش طبقے کے لیے یکساں پالیسی نہ ہو کیونکہ سفید پوش طبقہ معاشی بوجھ اٹھانے کی بجائے ریلیف کا حقدار ہے اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں بڑے اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم معاشی مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرسکیں گے اور غریب کو بھی کچھ ریلیف ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button