CM RizwanColumn

کپتان عالی شان .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

انگریز مفکر اسٹینلے والپرٹ نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ بہت کم لوگ تاریخ کا رخ موڑتے ہیں اور ان سے بھی کچھ کم لوگ دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور مشکل سے ہی کسی نے ایک نئی قوم تخلیق کی ہو گی۔ یہ تو ماضی کی ایک حقیقت ہے مگر آج تو ہمیں اپنے عہد حاضر کے بے مثال قائد عمران خان کو اس معیار پر پرکھنا ہے اور ہاں اگر اس پیمانے پر اس مقبول ترین سیاسی قائد کو پرکھیں تو عیاں ہوگا کہ وہ بھی نہ صرف دنیا کا نقشہ بھی بدل چکے ہیں بلکہ پی ٹی آئی یوتھ نامی ایک نئی نیم سیاسی مخلوق کے بھی موجد ہیں جو اپنی سوچ، خیال اور استدلال کی ساخت کے حوالے سے واقعتاً ایک نئی تخلیق شدہ قوم ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عمران خان نامی عظیم ترین قائد اپنی لاتعداد طویل ترین اور شہرہ آفاق تقاریر میں سے ایک میں یہ کہہ کر دنیا کے بڑے بڑے ریاضی دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال چکے ہیں کہ سن انیس سو پچانوے سے انیس سو بانوے کے درمیان سات سال ہوتے ہیں۔ افسوس کہ کئی عقل سے پیدل لوگ ان کے اس قول کو نشے کے اثرات کا نتیجہ قرار دے کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں گو کہ احمد فراز مرحوم جیسے عظیم شاعر کے فرزند شبلی فراز جو کہ آج کل عمران خان کے ذاتی سٹاف کے چیف ہونے کا بڑا اعزاز رکھتے ہیں ان بے عقلوں کو کئی بار سمجھا بھی چکے ہیں مگر کئی لوگوں کی تقدیر میں عمران خان کی مخالفت لکھ دی گئی ہے۔ پھر یہ بھی ایک ظالمانہ سوچ ہے کہ عمران خان پرانے، اصل، روشن اور ترقی کرتے پاکستان کو نیا بنا کر تنزلی کا شکار کر چکے ہیں ان کو شاید یہ علم نہیں کہ جتنا جی ڈی پی پاکستان کا دو ہزار اٹھارہ میں تھا، چار سالہ عمران حکومت کے بعد بھی اس سے کم تھا۔ پھر یہ بھی کم سیاستدان بیان کر سکے ہیں کہ جرمنی اور جاپان کا بارڈر ساتھ ساتھ ہے۔ عمران خان کا یہ نمایاں کام بھی یاد رکھنے والا ہے کہ نیپال کو کھٹمنڈو کا شہر بنانے سے لے کر کشمیر کی صدیوں پرانی آئینی حیثیت تبدیل کروانے تک کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد عمران خان دنیا کا نقشہ بدلنے کے عظیم کام شروع کر چکے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ آئندہ یقیناً دوتہائی بلکہ تین چوتھائی اکثریت سے جب وزیراعظم پاکستان بنیں گے تو وہ کشمیر کے اس ادھورے پراجیکٹ کو امریکہ کی مدد سے مکمل فرمائیں گے۔ ان سب کے علاوہ رفتار کی روشنی دریافت کرنے اور رحونیت کے ماہر ہونے کا سہرا بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ نوکریوں اور باہر کے ملکوں سے لوگوں کے پاکستان نوکری کرنے کیلئے آنے کے وعدوں کو اس طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے کہ بقول سابق سینیٹر فیصل واوڈا ملک میں نوکریوں کی ایسی بارش ہوئی کہ کاروباری حضرات نوکریوں کے بینر ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں پر کھڑے تھے مگر کوئی ایسا شخص نہیں مل رہا تھا جسے نوکری چاہیے ہو، کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی انڈے، کٹے، وچھے اور مرغیاں ملنے کے بعد خود بڑی کاروباری بن کر ارب پتی بن چکی تھی اور پھر یہ کہ شہد کی مکھیوں اور بھنگ کی کاشت سے حاصل ہونے والے کھربوں ڈالر اس کے علاوہ ہیں جن کو انویسٹ کرنے کیلئے حکومت نے علیحدہ سے غور و خوض کمیٹی بٹھائی ہوئی ہے۔ عمران مخالف لوگوں کو نفرت کی آگ میں اندھے ہو کر یہ نظر نہیں آتا کہ عمران حکومت میں ملک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی ایسے ایسے چاند چڑھائے ہیں کہ بقول ان کے اب عیدین کا چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اور پھر یہ بھی کہ عمرانی حکومت میں ہی ایسا ہیلی کاپٹر تیار کر لیا گیا تھا جو پچپن روپے فی کلومیٹر سفر کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس کا خرچ سائیکل سے بھی کم تھا۔ یہی وجہ ہے اس ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں یہاں تک کہ بعد ازاں بھی تقریباً نو ماہ تک ہیلی کاپٹر ایسے ہی اڑا جیسے کبھی جہانگیر ترین کا جہاز اڑا کرتا تھا۔ معیشت کے میدان میں بھی وطن عزیز کی یادگار اور باعث صد افتخار عمرانی حکومت کی کامیابیاں ناقابل یقین ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات کے استاد اسد عمر اور ان سے چھوٹے حماد اظہر سے لے کر امپورٹڈ شیخ اور شوکت ترین تک ہر وزیر خزانہ اپنی اپنی باری پر یکے بعد دیگرے قوم کو انتہائی چابک دستی، مہارت اور خوبصورتی سے مرحلہ وار معیشت کی تازہ بہ تازہ صورت حال اس طریقہ سے بتاتے رہے کہ ہر ماہ حتیٰ کہ ہر روز اور ہر گھنٹے ملک کتنی تیزی سے ترقی کرتا رہا۔ ملک کتنا اوپر جاتا رہا اور دنیا کتنا پیچھے اور نیچے رہتی گئی۔ اسی مبارک دور میں ایک وزیر کا بیان تو انتہائی قابل غور تھا کہ ہم نے جان بوجھ کر معیشت کی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے ورنہ ملک پتا نہیں کہاں سے کہاں چلا جاتا۔ ملک کو مقررہ حدود و قیود سے اوپر نہ جانے دینا بھی اسی عمران حکومت کا کریڈٹ ہے۔ قوم آئندہ نجانے کیسے ان احسانات کا بدلہ چکا پائے گی۔
یقین مانیں، ان سب بیمثال کامیابیوں کے حامل قابل فخر سابق وزیر اعظم عمران خان اب بھی اگر اپنی تقریر میں قوم کو اوپر اٹھانے کے اپنے ایجاد کردہ مزید طریقے بتا رہے ہوتے ہیں تو بالکل ایسے ہی لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب اتنا عظیم قائد ہم سے بہت دور کسی اور ملک میں پناہ لینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ایسے خوبصورت، دراز قد، دانا و بینا، شاہین صفت، دنیا بھر میں، کیلیفورنیا اور لندن میں خواتین و حضرات میں یکساں مقبول سیاسی قائد کرہ ارض پر کم ملکوں اور کم قوموں کو ہی نصیب ہوتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے ان کو اقتدار دے کر ان سے ان کی مرضی کے خلاف اقتدار واپس لے لیا جائے تو یہ پھر کم ہی عام آدمی کی طرح اس ملک میں رہ پاتے ہیں اور اگر بالفرض آنہیں اقتدار کے بغیر چند ماہ رہنا بھی پڑے تو یہ ایسے ہی رہتے ہیں جیسے جل بن مچھلی۔
قارئین میں سے کسی کو اگر ہمارے اس استدلال سے اختلاف ہے یا پھر شک کی کوئی ایک رمق بھی ذہن کے کسی کونے کھدرے میں کلبلا رہی ہے تو وہ زمان پارک میں جاکر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ دور حاضر کا یہ عظیم اور بے مثل قائد اپنے عوام کی قیادت و سیادت یعنی اقتدار کے بغیر کتنا بے چین ہے اور اگر کسی کے پاس لاہور کا کرایہ نہیں اور وہ زمان پارک میں جاکر اس زیارت سے محروم ہی رہنا چاہتا ہے تو وہ روزانہ صبح، دوپہر، شام عمران خان کے جاری ہونے والے بیانات، تقاریر اور پریس کانفرنسز کو غور سے دیکھ لے تو نہ صرف وہ عمران خان کی تکلیف نہانی کا مشاہدہ کر لے گا بلکہ اگر اس میں تھوڑا سا بھی تبدیلی کا عزم موجود ہے تو وہ خود بھی بے قرار ہو جائے گا اور ایک درد لادوا کا مریض بن جائے گا اور اس کو عمران خان کی قربت کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں رہے گی۔ وہ بس یہی چاہے گا کہ وہ عمران خان کی قربت میں باقی کی زندگی گزار دے۔ ثبوت کے طور پر سینکڑوں لوگوں کے حالات زندگی پیش کئے جا سکتے ہیں جو حق کو پہچان چکے ہیں اور سارا سارا دن اور ساری ساری رات زمان پارک کی گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں کہ کاش کوئی لمحہ ایسا ہو کہ عمران خان اپنے آپ کو دیدار عام کیلئے منصہ زمان پارک پر لائیں تو وہ جھٹ سے دیدار کر لیں۔
کپتان عالی شان کا عزم عالی شان بھی جگ میں مشہور ہو چکا ہے وہ جس ارادے پر کمر باندھ لیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے جیسا کہ اب انہوں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ وہ اپنی توڑی ہوئی دونوں صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کروا کے ہی دم لیں گے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی کایہ کلپ کر رکھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ آج کل روزانہ کی بنیاد پر ریلی نکالنے اور اپنے حامیوں کے اکٹھ کروا کے اداروں کو مرعوب کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ظالم نگران پنجاب حکومت ان کے عزم عالیشان میں بے جا مگر عارضی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ کبھی امن عامہ کی صورتحال کا بہانہ بنا کر اور کبھی پی ایس ایل میچز کی وجہ سے سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے دفعہ 144 کے نفاذ جیسا گناہ کررہی ہے۔ ان ناہنجاروں کو کون سمجھائے کہ اب ہی تو وقت ہے قوم کو باہر نکالنے کا اور قوم کے عظیم ترین لیڈر کی قیادت میں ریلیوں کے انعقاد کا۔ تاکہ آئندہ دو صوبوں کے الیکشن میں کپتان بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر میدان سیاست میں بھرپور طاقت کا بے دریغ مظاہرہ کر سکیں اور عظیم مشن کی خاطر حکومت کے سرمائے اور حکومتی مشینری کا وافر استعمال کر کے ملک کو اوپر لے جانے کا ادھورا کام مکمل کر سکیں جس کام کو بدنصیب پی ڈی ایم نے کپتان کے خلاف عدم اعتماد جیسی آئینی تحریک کامیاب کروا کر تکمیل سے پہلے ہی روک دیا تھا۔ کپتان عالی شان وقت کے بڑے قدر دان اور مائنڈ گیم کے بڑے کھلاڑی ہیں۔ وہ اپنے عظیم مقصد کیلئے ہاتھ میں آنے والی کسی بھی گیم کو خالی نہیں جانے دیتے ابھی کل کی بات ہے ان کا ایک شیدائی علی بلال عرف ظلِ شاہ ان کی کال کی گئی ایک ریلی میں شریک تھا۔ بدقسمتی سے اس ریلی کو نگران حکومت پنجاب نے دفعہ 144 نافذ کر کے سبوتاژ کرنے کی کوشش شروع کر رکھی تھی کہ نجانے کسی اچانک حادثے نے یا پھر کسی عمران دشمن ٹولے نے سڑک پر گاڑی کی ٹکر کا نشانہ بنا دیا۔ شاید ظل شاہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔ بہرحال کپتان کے ایک مقامی کھلاڑی راجہ شکیل کے ڈرائیور نے بھی مائنڈ گیم کے تحت اسے اپنے مالک کے کالے رنگ کے ویگو ڈالے میں رکھا اور ہسپتال لے جانے کی بجائے مالک مذکور کو بتایا۔ آگے مالک بھی کپتان کی مائنڈ گیم کا عامل ثابت ہوا اور اس نے پی ٹی آئی پنجاب کی کرتا دھرتا ڈاکٹر یاسمین راشد کو مطلع کیا، ڈاکٹر یاسمین راشد نے ظل شاہ کو اس ڈالے سمیت کپتان کے روبرو پیش کردیا تو ڈرائیور کہتا ہے کہ اس کارنامے پر کپتان نے انہیں شاباش دی اور اگلا ہدف دے کر یہ کہہ کر روانہ کر دیا کہ ڈرائیور بھیس بدل کر لاہور کی سڑکوں پر جیسے مرضی پھرے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر یہ کہ کپتان نے اپنی میڈیا ٹیم کو ظل شاہ کی موت پر مہم چلانے کا اشارہ دے دیا اور خود بھی پوزیشن سنبھال لی۔ اب ایک طرف نگران حکومت کی وضاحتیں اور بے شناخت قباحتیں ہیں اور دوسری طرف کپتان کے عزم عالیشان کے تحت ان کے لاہور کی انتظامیہ پر الزامات کی بھرمار ہے۔ یقین جانیں اس ساری کارروائی میں کپتان کی صرف ایک ہی حکمت عملی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے پاور میں آجائیں اور پھر ملک کو اوپر اٹھانے کی سبیل کریں۔ یہیں پر بس نہیں کپتان نے ایک مرتبہ پھر ریلی کی کال دی پنجاب کی ظالم نگران حکومت نے پھر دفعہ 144 نافذ کردی اور اس دفعہ تو حکومت نے رینجرز کو بھی بلا لیا۔ لیکن آپ سب کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ کپتان ہار ماننے والا نہیں وہ خود جھکتا ہے اور نہ ہی اپنی قوم کو جھکنے دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button