Editorial

دہشت گردی کے اسباب اور سدباب

 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خود کش دھماکہ ہوا لیکن دہشت گرد اہم ترین ہدف نشانہ بنانے میں ناکام رہے کیونکہ دارالحکومت میں سکیورٹی ہائی الرٹ اور چیکنگ چل رہی تھی کہ اسی دوران آئی ٹین فور میں پولیس اہلکاروں نے ایک مشکوک گاڑی کو تلاشی کے لیے روکا تو خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا،دھماکے میں 18کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا، جائے وقوعہ سے ایک موبائل فون بھی ملا،واقعے کےبعد ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ اور شہروں کے داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء کا کہنا ہے کہ گاڑی کو تلاشی کے لیے نہ روکا جاتا تو اگلے 5سے 10منٹ میں دہشت گرد کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ تک پہنچ چکے ہوتے۔بلاشبہ جس روز سے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیاگیا ہے، وطن عزیز بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوںمیں تیزی آئی ہے اور دہشت گرد سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن چند روز قبل ہی بنوں میں انسداد دہشت گردی کا دفترجہاں پچیس کے قریب دہشت گردوںکو تفتیش کی غرض سے رکھا گیا تھا، وہاں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا اور زیرحراست دہشت گردوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو ہی بندوق کی نوک پر یرغمال بنائے رکھا۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات کا تسلسل تشویش ناک ہے اور اگر بروقت اِس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو یقیناً مشکل حالات دیکھنا پڑ سکتے ہیں جو بہرکیف ہم ایک بار پھر دیکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دوخودکش حملہ آور گاڑی میں سوار تھے جنہوںنے پولیس کے روکنے پر خودکو اڑادیا یوں وہ جس مذموم مقصد کے لیے روانہ ہوئے تھے وہ پورا نہ ہوسکا، اگرخدانخواستہ وہ اپنے نشانے تک پہنچ جاتے، تو بلاشبہ اس وقت پوری قوم سکتے میں ہوتی کیونکہ وفاقی دارالحکومت کا چپہ چپہ اپنی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور دراصل دہشت گردوں نے اسلام آباد کی دہلیز پر بارود کے ساتھ دستک دینے کی کوشش کی ہے، لہٰذا پولیس کے شہید جوان نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بہت بڑے سانحے کو ٹال دیا ہے، سکیورٹی فورسز اور تحقیقاتی ادارے یقیناً ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کو بھیجنے والوں تک جلد ازجلد پہنچ جائیں گے اور بالآخر امن کے ان دشمنوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچنا پڑے گا مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس وقت سیاسی قیادت قریباً ایک سال سے سیاسی معاملات میں اِس قدر الجھی ہوئی نظر آتی ہے کہ دوسرے اہم معاملات اِس وقت ترجیحات میں بہت نیچے جاچکے ہیں خواہ وہ جان لیوا مہنگائی ہو یا پھر دہشت گردی کے پے درپے واقعات ۔ آج ہر طرف سے ایک بار پھرنیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے مطالبے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں مگر وہ سیاسی کج بحثی کے شور میں ارباب اختیار کو سنائی نہیں دے رہیں مگر ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے اورپوری یکسوئی کے ساتھ اِس عفریت کو قابو کیا جائے وگرنہ دہشت گردی کا عفریت پھر معصوم اور قیمتی جانوں کو نگلنا شروع ہوجائے گا، دہشت گردی کی بیس سالہ جنگ میں ہم نے اسی ہزار سے زائد جانیں قربان کیں، ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثرہوا ، باوجود اِس کے کہ ہم دہشت گردی کا شکار تھے، ہمیں روز جنازے اٹھانے پڑ رہے تھے لیکن ماسوائے اظہار افسوس کے، عالمی برادری نے اِس مشکل وقت سے باہر نکلنے کے لیے ہماری اُس طرح مدد نہیں کی، جس طرح کی جانی چاہیے تھی، خصوصاً وہ بھی پیچھے رہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر کارروائیاں کرنے میں اپناکوئی ثانی نہیں رکھتے، لہٰذا ہم نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ تن تنہا دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہماراکون دشمن ہے اور وہ کن کن کارروائیوںمیں پس پردہ ملوث رہا ہے، لہٰذا واضح ہےکہ ہم نے دہشت گردی کو پہلے بھی قوت بازو اور جذبہ ایمانی کے ساتھ شکست دی تھی، ہم آج بھی اسی جذبے کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، فقط ضرورت اِس امر کی ہےکہ سیاسی قائدین ایسے واقعات کے بعد اظہار تعزیت کی بجائے ، واقعات اور اِن کے اسباب کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مل بیٹھیں، جس طرح سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد سیاسی قیادت یکسو ہوئی تھی، ہم سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتیں گرانے بچانے میں لگے رہےتو کئی اہم مسائل کی طرح یہ اہم مسئلہ بھی ناسور بنتا جائے گا، مگر اِس کو ناسور نہیں بننے دینا کیونکہ ہم اپنے شہدا کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button