ColumnKashif Bashir Khan

پبلک سوموٹو! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب کا وزیر اعلی پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم معطل کرکے صوبائی کابینہ اور وزیر اعلی کو بحال کر دیا لیکن اس فیصلے سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سے بیان حلفی لیا جس میں انہوں نے یقین دہائی کروائی کہ اس کیس کی اگلی پیشی تک وہ پنجاب اسمبلی نہیں توڑیں گے۔یاد رہے کہ اگلی پیشی 11 جنوری مقرر کی گئی ہے۔نئے انتخابات کا انعقاد کا مطالبہ صرف تحریک انصاف اور عمران خان کا ہی مطالبہ ہی نہیں بلکہ تمام ذی ہوش طبقات کاہے۔پاکستان کی موجودہ بدترین معاشی تباہی کے بعد وفاقی حکومت پاکستان کو بنانا ری پبلک بنا چکی ہے اور آج پاکستان کو ٹیکنیکل ڈیفالٹ قرار دیا جا چکا ہے۔پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین معاشی اور سیاسی بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ قارئین کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ آٹھویں ترمیم کے بطن سے نکلی 58بی ٹو نے نوے کی دہائی میں پاکستان کے جنرل ضیاالحق کے بعد کے سیاسی میدان کو اتنا پراگندہ کیا تھا کہ وہ پراگندگی 1999 کے مارشل لاء پر منتج ہوئی تھی۔گورنر پنجاب کا پنجاب کی کابینہ اور وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنا تو مجھے آٹھویں ترمیم کی یاد دلا گیا، جب صدر پاکستان اور گورنر جب چاہتے تھے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑ دیتے۔عمران خان نے جب پنجاب اور خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے توڑنے کا اعلان کیا تو اس سے پہلے نیب کے مقدمات میں مطلوب رانا ثناءاللہ وغیرہ ہر روز مختلف چینلز پر ا ٓکر عمران خان کو دھمکیاں دیتے ہوئے بڑھکیں مارتے تھے کہ اگر عمران خان خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیاں توڑتے ہیں تو ہم فوراً نئے انتخابات کااعلان کر دیں گے لیکن جیسے ہی عمران خان نے دونوں اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تو نیب زدہ پی ڈی ایم کے اتحاد پر سکوت مرگ طاری ہو گیا اور انہوں نے فوراً آصف علی زرداری جو اراکین اسمبلی کی جانوروں کی طرح خرید و فروخت کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، کو پنجاب میں بلوا کر شہباز شریف سمیت تمام سیاسی بے وفائوں نے ان سے ملاقاتیں شروع کر دیں اور زرخرید میڈیا میں حمزہ شہباز،جو کہ کسی طرح بھی پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں رکھتے ،کو مستقبل کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔
پاکستان کی ناکام ترین وفاقی حکومت کے پروردہ جن پر کرپشن کے میگا مقدمات چل رہئے تھے، نے پاکستان میں اپنے اقلیتی اقتدار کو طول دینے کیلئے ایسا شرمناک اور گھناؤنا کردار ادا کرنا شروع کیا جس نے چھانگا مانگا اور سوات کی یاد دلادی۔سیاسی انجینئرنگ کیلئے 1989 میں اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب روپے لینے والے نواز شریف کے بھائی اور اس کے حواریوں نے زرداری کے ساتھ مل کر اراکین پنجاب اسمبلی کو کروڑوں اربوں روپے رشوت دینے کی آفرز شروع کردیں اور پھر پنجاب اسمبلی میں نمبرز پورے نہ ہونے کے
باوجود تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔اصل گیم یہاں سے شروع ہوئی جس نے وفاقی حکومت اور زرداری وغیرہ کی جمہوریت کے خلاف کھیل کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی وجہ سے تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی کو توڑنا ناممکن تھا کہ ان کا تو ووٹ ہی شمار نہیں ہونا تھا اس لیے زرداری اور شہباز شریف وغیرہ نے قاف لیگ کے اراکین کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کوشش میں چودھری شجاعت بھی خریدوفروخت کے جادو گروں کے ہمنوا تھے لیکن چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر تمام اراکین سے عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے حق میں بیان دینے اور ایوان میں اپنی حمایت وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے کے بعد پنجاب پر شب خون مارنے کیلئے گورنر پنجاب سے پنجاب اسمبلی کے چلتے اجلاس میں پہلے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کاووٹ لینے کا حکم جاری کروایا(جو کہ معروف ماہر قانون علی ظفر کے بقول غیر آئینی تھا) اور پھر عجلت میں ہی اقلیتی جماعت و اتحاد ہونے کے باوجود گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔لامحالہ اس عجلت میں جاری حکم نامے جس کا خالق رانا ثنا اللہ کو کہا جا رہا ہے جس کا مقصد تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں رکاوٹ ڈالنا تھا کہ پنجاب میں حکومت بنانے اور تحریک عدم اعتماد کا کامیاب کرنے کیلئے پی ڈی ایم کے پاس ارکان پنجاب اسمبلی کی مطلوبہ مقدار موجود
ہی نہیں۔عوام کو جاننا ہو گا کہ جب وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔گویا ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی اقلیتی وفاقی حکومت کو بچانا اور انتخابات یعنی عوام کا سامنا کرنے سے گریز تھا۔لاہور ہائیکورٹ سے وزیر اعلیٰ کو عبوری حکم کے تحت بحال کرنے سے گورنر کے اعتماد کا ووٹ لینے اور کابینہ اور وزارت اعلی کی تحلیل کا غیر آئینی حکم نامہ معطل ہو چکا ہے اور پرویز الٰہی مکمل طور پر پھر وزیر اعلیٰ پنجاب بن چکے ہیں لیکن وہ لاہور ہائیکورٹ کے اگلی پیشی تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے،اگر وہ اس سے پہلے اعتماد کا ووٹ اسمبلی سے حاصل کر لیتے ہیں تو پھر وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔اتحادی وفاقی حکومت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ابھی بھی سرگرم ہے اور گورنر کے حکم نامے کے بعد انہوں نے آئی جی پنجاب کو فوراً تبدیل کر دیا ہے اور عبدللہ سنبل کو چیف سیکرٹری بنا کر آج ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے غیر معمولی ملاقات کی اور سننے میں آیا ہے کہ لاہور کے کہنہ مشق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو تبدیل کر کے اپنے خدمت گزار اور اچھی شہرت نہ رکھنے والے بلال صدیق کمیانہ کو لاہور پولیس کا چیف لگا کر پنجاب حکومت کو مرکز سے چلانے کی پلاننگ کی جارہی ہے۔گورنر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے غیر آئینی حکم نامے پر چیف سیکرٹری پنجاب کے نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر جو اطلاعات میڈیا پر آئی تھیں ان کے مطابق ان سے اس نوٹیفیکیشن ہر زبردستی دستخط کروائے گئے۔عبداللہ سنبل نے میرے اس سوال کاجواب نہیں دیا حالانکہ وہ اچھے دوست ہیں۔دوسری جانب رانا ثناءاللہ نے میڈیا پر کہا کہ چیف سیکرٹری پنجاب کو رات گئے گورنر کے حکم نامے بارے اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ صوبوں اور مرکز کے درمیان اٹھارویں ترمیم کے باوجود مداخلت سے شدید آئین شکنی ہوئی اور پنجاب پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی سازش بے نقاب ہو رہی ہے۔خیر لاہور ہائیکورٹ کی اگلی پیشی جو 11جنوری کو ہے، میں گورنر کے اختیارات اور ان کے جاری کردہ حکم نامے کے غیر آئینی یا آئینی ہونے پر بحث ہو گی لیکن پی ڈی ایم کے اس ہوس اقتدار پر مشتمل انتہائی اقدام جسے ماہرین قانون خلاف آئین قرار دے رہے ہیں، نے ان کی اس حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ چور راستے سے اقتدار حاصل کرنے والے کس طرح سے انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔یقین کیجیے تمام نیب زدہ وفاقی وزراء اب جتنا بھی عوام کو کہتے رہیں کہ وہ انتخابات سے نہیں بھاگ رہے لیکن عوام 6 ارب ڈالر کے زر مبادلہ اور ایشیائی ترقی بنک کے اس بیان کے پاکستان کے توانائی کے گردشی قرضے ساڑھے چار ہزار ارب بڑھ جانے کے بعد انہیں 155 ارب روپے مزید چاہیے ان پر اعتماد کرنے اور ان کو کسی قسم کی حمایت دیتے نظر نہیں آرہے۔آج وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ورنہ پاکستان میں ان حکمرانوں کے ہاتھوں سانحہ مشرقی پاکستان کی طرح کا کوئی بھی سانحہ ہو سکتا ہے کہ ان حکمرانوں کا تو سب کچھ ہی ملک سے باہر ہے۔اس لیے عوام کو نیب ختم کر کے اپنے کھربوں معاف کروانے والوں کا احتساب(پبلک سوموٹو) کرنا ہو گا کہ نیب اور ایف آئی اے تو یہ اپنے حق میں ختم کر ہی چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button