Editorial

افغان فورسز کا پاکستان پر حملہ

 

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے علاقے چمن میں شہری آبادی پر توپ خانے؍مارٹر سمیت بھاری ہتھیاروں سے بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں6 شہری شہید اور 17 افراد زخمی ہوگئے۔ پاکستانی فورسز نے جارحیت کا موثر انداز میں بھرپور جواب دیا تاہم علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔پاکستان نے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر کابل میں افغان حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق افغانستان سے کچھ افراد نامکمل دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں داخل ہونا چاہتے تھے، پاکستانی اہلکاروں کے روکنے پر افغان فورسزنے مشتعل ہوکرفائرنگ شروع کردی۔ایک اور اطلاع کے مطابق افغان فورسز کی جانب سے سرحد پر لگی باڑ کو کاٹنے کی کوشش کی گئی جس پر یہ واقعہ پیش آیا۔طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ سرحد پر ہونے والے واقعے کے بارے میں متعلقہ حکام تفتیش کر رہے ہیں،مزیدتناؤسے گریز کیا جائے، پاکستان نے افغان بارڈر فورسز کی جانب سے چمن میں شہری آبادی پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی مذمت کی ہے۔ اِس افسوس ناک واقعے کے بعد پاک افغان بارڈر باب دوستی ہرقسم کی آمدورفت کے لیے بند کردیا گیا ہے، دوطرفہ تجارت معطل ہے اور کسٹم ہاؤس کو خالی کردیا گیا ہے۔ پاکستانی مال بردار اور خالی ٹرک باب دوستی کے دونوں جانب پھنس گئے ہیں۔ترجمان دفترخارجہ پاکستان نے کہا ہے کہ افسوسناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق نہیں، افغان حکام کو کہا ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔سرحد پر شہریوں کی حفاظت دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے، پاک افغان حکام صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے رابطے میں ہیں۔ افغانستان کے لیے پاکستان کی مسلسل قربانیوں اور لاکھوں افغانیوں کی تیسری نسل پروان چڑھنے تک پاکستان میں پناہ دیکر وسائل پر بوجھ اور مسائل بڑھنے کا ذکر کرنے سے پہلے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ قریباً ایک ہفتہ قبل ہی کابل
میں پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ کیاگیا اور ناظم الامور عبید الرحمٰن نظامانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق حملے کا ملزم گرفتار کیا جاچکا ہے مگر افغانستان کی عبوری حکومت کی طرف سے سفارت خانے اور اس کے اہلکاروں کی حفاظت کے لیے ناکافی انتظامات محسوس کیے جاسکتے ہیں اور اب سرحد پار سے پاکستانی علاقے پر حملہ بھی اِسی رویے کا تسلسل معلوم ہوتا ہے کیونکہ سرحد پار افغانستان سے پاکستانی علاقوں پر حملے اور اِن کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کے جانی نقصان کا یہ پہلا یا دوسرا واقعہ افسوس ناک واقعہ نہیں بلکہ پورا تسلسل ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج کی افغانستان میں بیس سال موجودگی کے دوران اسی نوعیت کے حملے تسلسل کے ساتھ کیے جاتے رہے جن میں سکیورٹی فورسز کے جوان اور بے گناہ شہری نشانہ بنائے گئے مگر امریکی انخلا کے بعد اطمینان ہوا کہ طالبان عبوری حکومت آنے کے بعد اب سرحد کا یہ حصہ محفوظ رہے گا اور سکیورٹی فورسز کو اپنی زیادہ توجہ دوسرے سیکٹرز بالخصوص بھارتی سرحد پر مرکوز کرنے میں آسانی ہوگی مگر انتہائی افسوس کے ساتھ دھرانا پڑتا ہے کہ طالبان عبوری حکومت کے باوجود افغانستان سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے، سکیورٹی فورسز اور شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہاہے جو پاکستان اور پاکستانیوںکے لیے انتہائی تکلیف دہ بات ہے کیونکہ افغانستان پر روسی حملے کے بعد پاکستان نے کشادہ بازوں کے ساتھ کم تر وسائل اور بے شمار مسائل کے باوجود لاکھوں متاثرہ افغانیوں کو خوش آمدید کہا اور آج بھی ان کی تیسری نسل یہاں پروان چڑ ھ چکی ہے۔ پاکستان میں بیس سال سے زائد عرصے سے ہونے والی دہشت گردی میں افغان لوگ ملوث نظر آئے تو کبھی افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی، اِس کے باوجود پاکستان نے برادر اسلامی ملک اور افغان عوام کی حالت زار کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام عالم میں بیس سال تک افغانستان کا مقدمہ لڑا اور جنگ کی جگہ تصفیے پر زور دیا اور بالآخر پاکستان کی ہی کاوشوں سے امریکہ کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکی انخلا کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کی تاکہ افغان عوام کو ریلیف مل سکے مگر آج ہم افغان عبوری حکومت کے باوجود افغان سرحد پار سے پاکستان پر حملوں کی مذمت کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کو ایسی تمام مذموم سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی افغانستان کے لیے بے لوث قربانیوں اورکوششوں کو نقصان پہنچے اور نتیجے میں دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات بھی متاثر ہوں، افغان عبوری حکومت کو اپنی ذمہ داری کا بخوبی احساس کرتے ہوئے اِس امر پر توجہ دینی چاہیے کہ کرہ ارض پر پاکستان کے سوا کوئی بھی افغانستان یا افغانیوں کا حمایتی نہیں ہے لہٰذا احسان فراموشی کا رویہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button