Anwar Ul HaqColumn

سیاسی ومعاشی حالات اور آئی ایم ایف .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

پاکستان مسلم لیگ نون کے زعماء اکرام میاں نواز شریف کی آمد کی قوم کو نوید سنا رہے ہیں۔ یہ دل نشین راگ عرصہ دراز سے سماعتوں کو متاثر کر رہا ہے، اہل سیاست کیلئے یہ خبر کوئی نئی خبر نہیں۔اسحاق ڈار موجودہ وزیر خزانہ کی آمد سے یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب میاں نواز شریف بھی جلد واپس ا ٓجائیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے ٹوٹا ہوا ووٹ واپس ا ٓجائے گا، مسلم لیگ نون نے معیشت کو درست سمت میں لانے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کئے تھے۔ اسحاق ڈار نے ڈالر کو دوسو روپے سے نیچے لانے کا دعویٰ کیا تھا، برآمدات میں اضافہ کرنے، درآمدات اور مہنگائی کم کرنے اور شرح سود نیچے لانے کا یقین دلایا تھا لیکن زمینی حقائق توقعات کے بالکل برعکس ہیں۔ان حالات میں میاں نواز شریف کی واپسی سیاسی حالات میں جوہری تبدیلی لانے میں ناکام رہے گی۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ نواز شریف اس وقت تک کوئی بڑا قدم اٹھانے سے گریزاں رہتے ہیں جب تک ان کو پوری طرح تحفظ کا یقین کامل حاصل نہ ہو جائے۔ پاکستان مسلم لیگ نون یہ تاثر پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ آ ئندہ انتخابات مین وزارت عظمی کے امیدوار نواز شریف خود ہوں گے۔ چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو وطن لانے کی سازش ان کے خلاف کی گئی ہے۔ عمران خان نے حقیقی آزادی مارچ کے پنڈی کے جلسےسے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ہم جلد صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں گے اب ان کا فرمان ہے کہ ہم 20 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں گے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ چند نشستوں کے علاوہ باقی تمام نشستیں سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کے مطابق برقرار ہیں۔ عمران خان کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ مطلوبہ نتائج مرتب کرنے سے قاصر رہا ہے بلکہ مرکزی حکومت کو من مرضی کی قانون سازی کا موقعہ فراہم کرنے کا سبب بنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون اب سمٹ کر پنجاب کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب میں بھی اس کا طنطنہ، دبدبہ اور دغدغہ ختم ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اگر اسمبلیوں کو تحلیل کر دیتی ہے تو ملک میں صرف صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانا مشکل ہو جائیں گے۔ بے شک آئینی طور پر اکیلے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کے ہاتھ میں یہ ترپ کا پتہ ہے۔ اگر تحریک انصاف حوصلہ کرکے یہ حکمت
عملی اختیار کر لیتی ہے تو دو صوبائی اسمبلیوں کا فریش مینڈیٹ اسے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی دلوانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ رانا ثناللہ صاحب اپنی فیصل آبادی بصیرت کے مطابق تحریک انصاف کو للکار رہے ہیں کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کو فوری طور پر تحلیل کیوں نہیں کرتے۔اگر کردیں گے تو ہم فوری طور پر الیکشن کروادیں گے۔ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قاف کے درمیان بھی اعصابی جنگ اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔بظاہر چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کو یقین دلایا ہے کہ جب عمران خان حکم فرمائیں گے، اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ مونس الٰہی نفس ناطقہ پرویز الٰہی نے قمر جاوید باجوہ کا سیاسی عمل میں کردار فاش کرکے اپنی اور سابق آرمی چیف کی سبکی کا اہتمام کر لیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب پرویز الٰہی کو عرصہ دراز کے بعد پنجاب کا اقتدار ملا ہے، ان کیلئے اور ان کی جان بلب پارٹی کیلئے اقتدار میں رہنا بے حد ضروری ہے۔پرویز الٰہی کے دلائل میں خاصا وزن ہے کہ اگر تحریک انصاف دو صوبوں کے اقتدار سے از خود دستکش ہو جاتی ہے تو صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف َظلم و ستم جارہی ہے جس طرح ایک ٹویٹ پر اعظم سواتی جیسے بزرگ رہنما کو عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عمران خان کے ارد گرد قانونی دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے ان حالات میں صوبائی حکومتوں کو تج دینا سیاسی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ عمران خان نے صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کا اعلان جلد انتخابات منعقد
کروانے کیلئے کیا تھا لیکن بظاہر عمران خان کا یہ اعلان مطلوبہ نتائج مرتب کرتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ جو فرد پارٹی ٹکٹ کی برکت اور اپنے ذاتی اور خاندانی وسائل خرچ کر کے ممبر اسمبلی بنتا ہے پتا نہیں دوبارہ پارٹی اسے ٹکٹ فراہم کرتی ہے یا نہی یا وہ آئندہ کامیاب ہوتا بھی ہے کہ نہیں، یہ بہت سے سوالات ممبران اسمبلی اور ان کے خاندانوں کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت جلسے جلوس کرکے سیاسی کارکنان اور ٹکٹ کے امیدواروں کا جلوس نکال دیتی ہے۔ جلسے جلوسوں نے دور حاضر کی سیاست کو بہت مہنگا کر دیا ہے۔ اب یہ درمیانے درجے کے سیاسی کارکنان کے بس کی بات نہیں رہی۔ لینڈ مافیا، ڈویلپر، جاگیر دار، بڑے صنعت کار، حرام خور، کک بیک مافیا ہی اس قابل ہے کہ سیاست میں حصہ لے سکے۔
ایک نجی ٹی وی پردو معروف اینکرحضرات گفتگو فرما رہے تھے کہ اگر ہر ایم پی اے اور ایم این اے کا امیدوار ایک ایک ہزار بندہ اپنے حلقوں سے لے آئے تو جلسے میں لاکھوں آدمی جمع ہو سکتے ہیں۔ بات کرنی آسان ہے، جلسوں میں بندے لانا انتہائی مشکل اور مہنگا سودا ہے۔ ممبران اسمبلی کا مستقبل کے وعدہ پر اسمبلیوں سے مستعفی ہوجانا آسان کام نہیں لیکن تحریک انصاف کی قیادت یہ عمل کرنے پر قادر ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ فوری قومی انتخابات منعقد ہو جائیں گے۔ 13دسمبر کو عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن بہت سے مقدمات کی سماعت کر رہا ہے ۔ مرکزی حکومت کی خواہش ہے کہ عمران خان کو بہت سارے فوجداری مقدمات میں اُلجھا کر کسی نہ کسی طریقے سے اسے نا اہل قرار دلوایا جائے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں سیاسی کشیدگی بڑھنے کے امکانات میں اضافہ ہو گا۔ صدر مملکت اور اسحاق ڈار کی کوششیں بار آور ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔ فوج نے بھی اپنا کردار سیاسی معاملات سے الگ کر لیا ہے۔
مجوعی طور پر ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر 12ارب اور 58کروڑ ڈالر ہیں، گزشتہ چار سالوں میں سب سے کم ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ قرضوں کی ادائیگی بروقت کر سکے گی، ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ آئی ایم ایف کی واحد کشتی ہے جو ہمارے لیے سہارا بن سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ 2019ء میں کیا گیا تھا وہ اس پر قائم ہے لیکن پاکستان کیلئے معاہدے کی شرائط کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔855ارب روپے کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے۔ اس کو پورا کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا منی بجٹ، دوسرا پٹرولیم لیوی میں اضافہ۔ اسحاق ڈار کی معاشی جادوگری بھی ملک کے معاشی استحکام کیلئے کار آمد ثابت نہیں ہو رہی۔ آئی ایم ایف نے شرط عائد کی تھی کہ دسمبر 2022ءتک تمام سرکاری اداروں کے فنڈز کمرشل بنکوں سے نکال کر سٹیٹ بنک میں جمع کروائے جائیں اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ۔ قوم کو مزید معاشی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیشگی تیار کر لینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button