Editorial

عدالت عظمیٰ سے ریکوڈک معاہدہ کی توثیق

عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے اس کی توثیق کردی ہے۔ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 29جولائی 1993کو آسٹریلیا کی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ کے ساتھ ریکوڈک کے مقام پر سونے اور کاپر کی تلاش کے لیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کے نام سے معاہدہ کیا تھا،جس کے مطابق 75فیصد شیئر کمپنی کا جبکہ 25فیصد بمعہ 2فیصد رائلٹی بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھاٹری کو ملنی تھی، تاہم اِس معاہدے کے خلاف مقدمہ بازی کا آغاز ہوگیااور 7جنوری2013کو سپریم کورٹ نے اس معاہدے کو غیر قانونی اور غیر شفاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا، جس پر متاثرہ کمپنی نے عالمی مصالحتی عدالت میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا، جس میں پاکستان کے خلاف فیصلہ جاری کرتے ہوئے قریباً دس ارب ڈالرز کا جرمانہ کیا گیا۔ بعد ازاں حکومت پاکستان اور کمپنی نے عدالت کے باہر معاملہ طے کرکے ایک نیا معاہد ہ کیا اورقانونی حیثیت کے تعین کے لیے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ صدارتی ریفرنس بھجوایا تھا ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز کھلی عدالت میں ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدہ کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جزوی طور پر چار، ایک کے تناسب سے جاری کیا ہے، 13 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کرسنایاجس میں کہاگیا کہ کوئی شق خلاف قانون نہیں۔ ماحولیاتی حوالے سے بھی درست ہے۔ بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیاہے۔ فارن انوسٹمنٹ بل صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیںبلکہ پچاس کروڑ ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کرنیوالی ہر کمپنی کے لیے ہے، عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان 10ارب ڈالر جرمانے سے بچ گیا ہے، سپریم کورٹ نے کہاکہ آئین خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا، معدنی وسائل کی ترقی کےلیے سندھ اور خیبرپختونخوا میں قانون بناچکے ہیں، صوبے معدنیات سے متعلق قوانین تبدیل کرسکتے ہیں، تنخواہوں کے قانون پر عمل مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا، سماجی منصوبوں پر سرمایہ کاری، سکل ڈویلپمنٹ کے لیے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ عدالت عظمیٰ کی رہنمائی سے ایک عشرہ بعد ریکوڈک منصوبے پر کام کاآغاز دوبارہ ہوگا اور بلاشبہ دیگر غیر ملکی کمپنیاں بھی اِسی کی بنیاد پر بلوچستان کارخ کریں گی اور اِس کے نتیجے میں نہ صرف وفاق اور صوبہ بلکہ مقامی افراد بھی خوش حال ہوں گے اور ہم بھی انہی ممالک میں شامل ہوجائیں گے جو
معدنیات سے خوش حال ہوئے ہیں مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر اسی سنجیدگی اور توجہ کا مظاہرہ کیا جائے جیسا کہ ریکوڈک کے معاملے میں کیاگیا ہے۔حالیہ معاہدے کے تحت بلوچستان کے مقامی آٹھ ہزار سے زائد افراد کو کمپنی کی وجہ سے روزگار میسر ہوگا ۔ اِس منصوبے کی آمدن سے پچاس فیصد رقم وفاق اور پچاس فیصد رقم کمپنی کی ہوگی ۔وفاق کو ملنے والے پچاس فیصد میں سے 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گاحالانکہ پہلے معاہدے کے مطابق بلوچستان کو صرف دس فیصد شیئر ملنا تھے مگر حالیہ معاہدے کے بعد مرکز اور بلوچستان کو زائد رقم ملے گی ۔ ماہرین کے مطابق کمپنی پرانے معاہدے کے تحت ریکوڈک سے نکالنے والے محلول کو پائپ لائن کے ذریعے گوادر تک لے جائے گی جہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے اِس محلول کو بیرون ملک لے جا کر پراسیس کیا جائے گا۔ سندھک کے منصوبے پر کام اسی طرح ہورہا ہے اور چین سندھک سے نکالنے والے محلول کو اپنے ملک لے جا کر پراسیس کرتا ہے۔ بلوچستان قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے اور بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے ترقیاتی کاموں کے باوجود صوبے کی پسماندگی وہیں کی وہیں ہے ، اِس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے البتہ یہ امر خوش آئند ہے کہ ریکوڈک کا معاملہ قانون کے مطابق قرار پایاگیا ہے اور بلاشبہ دوسری غیر ملکی کمپنیوں کو بھی اِس سے ترغیب ملے گی کہ وہ یہاں آکر معدنیات تلاش کریں، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اِس معاہدے کی شفافیت پر مہر ثبت کردی ہے لہٰذا آئندہ کسی کو اِس یا اِس جیسے معاہدے کی راہ میں مالی لالچ کی غرض سے روڑے اٹکانے کی جرأت نہیں ہوگی اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو بلاشبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی رہنمائی متعلقہ عدالتوں کے لیے کافی ہوگی۔ اول تو ہمیں معدنیات نکالنے کے معاملے پر خود کفیل ہونا چاہیے تھا، اپنی معدنیات ہم خود نکالتے اور خود ہی اس کے مالک ہوتے مگر افسوس کہ ارباب اختیار نے پچھلے ستر سال میں معدنیات نکالنے کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گر کیا ہوتا تو آج بلوچستان ترقی میں باقی صوبوں سے کہیں آگے نکل چکا ہوتا اور ہم بھی معاشی مسائل میں نہ اُلجھے ہوتے ، مگر ماضی کے حکمرانوں کی سوچ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، وگرنہ آج معدنیات ہماری قوم کی تقدیر بدل چکے ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے عناصر کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو قومی اہمیت کے ایسے اہم منصوبوں میں آلہ کار بن کر قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ایسے افراد کسی ایک جگہ پر نہیں ہیں بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، زیر بحث آسٹریلوی کمپنی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیاگیا اور معاملہ کو الجھایاگیا سب قابل مذمت ہے لیکن مستقبل میں کوئی ایسی حرکت نہ کرے اِس کی بھی منصوبہ بندی ابھی سے کی جانی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے اِس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے انتہائی سمجھ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے بھی قومی مفاد کے اِس منصوبے کا بغور جائزہ لیکر قوم کی رہنمائی کی ہے۔ لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ وفاق اور بلوچستان اِس منصوبے کو مثال بناتے ہوئے مزید منصوبوں کے لیے مل کر کام کریں گے اور اِس میں سب سے زیادہ مدنظر بلوچ عوام کو رکھا جائے گا تاکہ کسی کو احساس محرومی کاشکوہ ہو اور نہ ہی کوئی دشمن کا آلہ کار بنے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button