ColumnKashif Bashir Khan

جمہور کی شراکت کے بغیر ریاست ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کی تاریخ 75 سالہ پرانی ہے اور پاکستان کے اصل مالک یہاں کے عوام ہیں لیکن دُکھ کی بات ہے کہ پاکستان کے عوام کو ہی ریاست کے تمام معاملات سے بے دخل کیا جا چکا ہوا ہے۔حتیٰ کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو ان کا مینڈیٹ بھی چوری کر لیا جاتا ہے۔جمہوریت کی تعریف کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ عوام کے ذریعے عوام کیلئے عوام کی حکومت۔یعنی جمہوریت کے اصل معنی جمہور کی اپنی حکمرانی ہے۔ریاست میں عوام(جمہور)کی آسانیوں کیلئے قوانین بنائےجاتے ہیں اور ریاست جسے ماں جیسی بھی کہا جاتا ہے عوام کی زندگیاں سہل کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کرتی ہے،لیکن یہ اقدامات تب ہی ممکن ہو تے ہیں جب عوام ہی ریاست کے حکمران ہوں اور وہ ایسے ریاستی اجتماعی قوانین و ضابطے تشکیل دیں جن سے ان کو نہ صرف مکمل آگاہی ہو بلکہ ان قوانین سے اجتمائی طور پر استفادہ بھی اٹھا سکیں۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ریاست کے حکمران حقیقتاً عوام میں سے ہوں یعنی ان کا تعلق امرا اور مافیاز سے نہ ہو۔خوشحال معاشرے کی تشکیل میں ریاست کی حکومت بنیادی رول ادا کیا کرتی ہے اور عوام کی حکومت اس جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج تک کون سا ایسا دور ہے جسے ہم عوام کی حکومت پر مشتمل دورقرار دے سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب ہمیں پاکستان کے قریباً تمام ادوار کی حکومتوں کا احاطہ کر کے نفی میں ملتا ہے۔پاکستان ایسا بدقسمت ملک ہے جہاں ہر دور میں عوام پر ایسے معاشی، معاشرتی، قانونی و آئینی اقدامات کو تھونپا گیا ہے جن کا نفاز مراعات یافتہ طبقات پر کبھی بھی نہیں ہوا۔ایسے قوانین جن میں ریاست کے حقیقی مالکان و وارثان (عوام)کی رائے کو کبھی شامل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مشکلات و پریشانیوں کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
ملکی آئین و قوانین پر عملداری ریاست کی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ انتظامیہ و عدلیہ کی مدد سے ریاست میں آئین و قانون کی عملداری کو بلا تفریق یقینی بناتی ہے لیکن پاکستان میں قریباً ہر دور میں عوام کو یکسر نظر انداز کر کے تمام قوانین کو کمزور طبقات پر لاگو کیا جاتا رہا ہے اور امراء اور طاقتوروں کیلئے ریاستی قوانین کو ان کے گھر کی باندی بناڈالا گیا۔پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ آج تک عوام کی اکثریت کو دوسرے درجے کے باشندوں کا درجہ دیا گیا اور طاقتور طبقات کو کبھی بھی قانون کے دائرے میں لانے کی کوئی حقیقی کوشش کسی بھی دور میں نہیں کی گئی۔(شریف برادران اور رانا ثناءاللہ کی کل ہی احتساب اور اینٹی نارکوٹکس کورٹس سے مختلف کیسوں میں بریت اور سلمان شہباز کی وطن واپسی سے قبل حفاظتی ضمانتیں زندہ مثال ہیں)آج جب ہم پاکستان کے ماضی کو ٹٹولتے ہیں تو ہمیں ریاست کے کرتا دھرتاؤں کی عوام سے بے وفائیوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ریاست پاکستان کے باشندوں یعنی جمہور یا عوام کے حصے میں محرومیاں اور تلخیاں ہی نظر آتی ہیں اور عوام کی زندگیاں گردش ایام کا سامنا کرتی نظر آتی ہیں۔پولیس اور سرکاری محکموں کی کہانی بھی غضب ناک ہے اور تھانے و مختلف سرکاری محکمے عوام کیلئے نہ صرف خوف کی علامت ہیں بلکہ وہاں جانے کیلئے جیب بھری ہونا بنیادی شرط بن چکا ہے جبکہ ان سرکاری محکموں کے ملازمین کیلئے تھانے اور سرکاری ادارے و عہدے منفعت بخش کاروبار ہیں۔ پاکستان میں عدالتی کارروائیاں بھی عمر خضر کی طرح طویل تر ہوتی ہیں اور اگر ایک شخص کوئی مقدمہ درج کرواتا ہے تو بہت مشکل ہے کہ اس کا پوتا بھی اپنی زندگی میں اس عدالتی مقدمے یا کیس کا نتیجہ سن یا دیکھ سکے۔کچھ دنوں قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنلکی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جو ریاست پاکستان کی تباہی اور زبوں حالی پیش کرتی نظر آ رہی ہے۔رانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب و پاکستان بھر میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کو سب سے کرپٹ ادارہ قرار دیا گیا ہے اور بلوچستان میں سرکاری ٹھیکوں میں بدترین کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے اسی طرح سندھ میں محکمہ تعلیم کی کرپشن کی نشاندہی صف اول پر کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں عدلیہ کی کارکردگی اور کرپشن صف اول پر ہے۔بلوچستان میں سرکاری ٹھیکوں کی کرپشن پہلے نمبر پر ہے جبکہ ملک بھر میں عدلیہ کی کرپشن تیسرے نمبر پر ہے۔رانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے عوام کی 75 فیصد سے زائد اکثریت ملک میں سرکاری اداروں کی کرپشن اور عدلیہ کی کارکردگی پر اینٹی کرپشن اداروں کی کارکردگی سے نالاں ہیں۔بات پھر وہاں ہی پہنچ جاتی ہے کہ اداروں کی کرپشن اور ابتر ترین کارکردگی کی زمہ داری جہاں حکمرانوں کی ہے وہاں کرپشن کو روکنے والے اداروں اینٹی کرپشن،نیب اور ایف آئی اے وغیرہ بھی کرپشن کے بڑھاوے کے ذمہ دار ہیں کہ ایسے تمام اداروں میں کرپشن اور سیاسی مداخلت نے ان کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رکھا ہے۔جس ریاست میں سیلاب زدگان کیلئے بیرون ملک سے ملنے والی اربوں کی امداد کا ریکارڈ
غائب کر دیا جائے(سندھ میں)اور سیلاب زدگان کیلئے ملنے والے ٹینٹ ایک عالم دین سیاسی رہنما کے جلسوں میں استعمال کئے جائیں کیا اس کو ریاست کہا جا سکتا ہے؟اس کا جواب قارئین ہی دے سکتے ہیں۔پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کے علاوہ پچھلے 75 سال میں کون سا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے، میں اس کا جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیشہ ہی پریشان ہو جاتا ہوں۔پاکستان کو اپنی گردن لمبی کروا کر ایٹمی طاقت بنانا صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ تھا ورنہ جتنی کرپشن اور ریاست کی بدترین تصویر اس وقت دنیا کے سامنے ہے ہماری سالمیت (خدانخواستہ) کو کب کا نقصان پہنچ چکا ہوتا کہ دیوار کے ساتھ جڑا دشمن(بھارت) قیام پاکستان کے فوری بعد سے ہماری سالمیت اور آزادی کے درپے ہے۔جہاں پاکستان کے سیاستدانوں، سول، ملٹری اور جوڈیشل افسرشاہی، مافیاز وغیرہ کی کرپشن کی صدائیں دنیا بھر میں بلند ہو رہی ہیں وہاں ہمارا ایٹمی طاقت ہونا پاکستان کی حساس سٹریٹیجک پوزیشن اور ان گنت بیرونی عالمی سازشوں اور خطرات کے باوجود طاقت کے توازن کو ہمارے حق میں برقرار رکھے ہوئے ہےلیکن سوچنا ہے کہ ریاست پاکستان میں اداروں کی لوٹ کھسوٹ اور معاشی بدحالی کے باوجود ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ریاست پاکستان کو کب تک تباہی سےبچا پائے گا۔
بطور صحافی میری پریشانی موجودہ ملکی بدترین سیاسی و معاشی حالات کے علاؤہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس مستقبل کی منصوبہ بندی کے تناظر میں کسی بھی مربوط ایجنڈے و منشور کی عدم دستیابی ہے۔ ہماری آنے والی نسلیں ماضی میں پاکستان کے ساتھ جگاڑ کرنے والے تمام طبقات کے کئے ہوئے ظلم و لوٹ مار کا شکار ہوں گے اور 75 سال کے بعد آج ہم بطور قوم وہاں بھی نہیں کھڑے نظر آ رہے جہاں سے ہم نے آزادی کے بعد 1947 میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔دکھ کی بات ہے کہ آج اگر ہم تمام اداروں کے علاوہ پارلیمنٹ جو بہرحال سپریم ہوتی ہے کہ جانب دیکھیں تو دکھ کا احساس ہوتا ہے کہ قریباً دس ماہ سے سیاسی مقاصد کیلئے ملک کی اکثریتی سیاسی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کو اپنے اقتدار اورسیاسی مقاصد کیلئے منظور نہ کر کے لٹکایا جا رہا ہے اور ایک ایسی اسمبلی جسے لولا لنگڑا ہی کہا جا سکتا ہے،سے اپنے مالی و سیاسی مفادات کیلئے ایسی قانون سازی کی جارہی ہے جس سے مہذب دنیا پاکستان میں کرپشن کو سرکاری و آئینی کور دینے پر تھو تھو کر رہی ہے۔بات شروع ہوئی تھی ریاست میں عوام(جمہور)کی عدم شرکت کی۔پاکستان میں رہنے والے عوام بہت بدقسمت ہیں کہ اب تک پاکستان میں تین آئین اور بے شمار لیگل فریم ورک بنائے جا چکے ہیں۔اب تو موجودہ آئین پاکستان بھی عوام کو درپیش مسائل اور آئین پر عمل درآمد نہ ہونے پر ناکامی سے دوچارنظر آرہا ہے کہ آئین پاکستان کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے اور موم کی ناک بنانے کی روش نے آئین پاکستان کی عملداری کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔دوسری جانب جب ہم مغربی دنیا کی بات کرتے ہیں تو برطانیہ کے آئین کی عملداری سوفیصد اور مثالی ہے اور وہ قارئین حیران ہوں گے کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔غیر تحریری آئین کی موجودگی اور اس کی عملداری دنیا بھر کی ریاستوں کیلئے جمہوری روایات اور حکومتوں کی شفاف کارکردگی کاایک جیتا جاگتا ثبوت ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہم نے آئین و قانون کو گھر کی باندی بنایا ہوا ہے۔آج کی تحریر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کر رہا ہوں کہ پاکستان آج جس برے گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس سے باہر نکلنے کا واحد حل عوام(جمہور)کو ریاستی معاملات میں شریک کرنے میں پنہاں ہے۔ورنہ ریاست کی بدترین شکل کی صورت میں پاکستان تو زمانے کے سامنے ہے ہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button