ColumnZameer Afaqi

قطرہ قطرہ زندگی ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

امریکہ میں ہر سال قریباً تین لاکھ سے زیادہ کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ملین میں ان کا ایک ایک ایڈیشن شائع ہوتا ہے۔ انڈیا میں قریباً 83 ہزار کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ چند سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 45 ہزار کتابیں چھاپی گئیں۔ترقی یافتہ ممالک میں اخبار اور کتابیں خریدنے اور ان کو پڑھنے کی شرح ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر لوگ پڑھ نہیں سکتے تو جو پڑھ سکتے ہیں وہ ان کو پڑھ کر سنا تے ہیں، اب تو جدید ٹیکنالوجی نے اور بھی آسان کر دیا ہے کمپیوٹر آپ کو کتاب پڑھ کر سناتا ہے کتاب لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے ہمارے فاسٹ فوڈ آباد ہیں ہم برگر کھلانا سٹیٹس سمجھتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو یا کود کتاب خریدنا معیوب سمجھتے ہیں اسی لیے ہمارے ہسپتاک بھی آباد ہیں اور میڈیکل سٹور پر بھی رش ختم نہیں ہوتا۔ہمارے سکول لائبریریوں سے محروم ہیں جبکہ ہمارے گھروں سے کتابوں کی الماریاں غائب ہو چکی ہیں اور پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ برباد کیوں ہے ہمارے بچے بد تمیز اور بد تہذیب کیوں ہیں ، ہم ترقی کیوں نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں اب کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بہتری کے آثار نظر آنے شروع ہوئے ہیں اس کی ایک وجہ تو دنیا کے مشہور و معروف ادیبوں کے تراجم کے ساتھ نئے لکھنے والے میدان میں آرہے ہیں اس کے ساتھ ہی کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے اگر کسی صاحب اختیار کی کوئی کتاب جب شائع ہوتی ہے تو اسے کافی پزیرائی ملتی ہے یوں کتاب کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ میرے سامنے کیپٹن(ر) لیاقت علی ملک کی کتا ب’ ’قطرہ قطرہ زندگی‘ بھی پڑی ہے اور ’حاصل لاحاصل‘ بھی یہ دونوں کتابیں اپنے نفس مضمون میں بے شمار معنویت رکھتی ہیں ان کتابوں میں مصنف اپنے قارئین سے جس طرح ہمکلام ہے اس سے لگتا ہے وہ معاشرے کا نہ صرف نبض شناس ہے بلکہ افراد معاشرہ کے اذہان کو بھی پڑھنا جانتا ہے۔
ملک لیاقت علی ہمارے بہت اچھے دوست ہیں جن کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے پولیس جوائن کرنے سے پہلے وہ فوج میں تھے ۔ یوں تووہ پولیس آفیسر لیکن ان کے اندر ایک ادیب شاعر اور نثر نگار بھی ہے جس کا اظہار انہوں نے تین کتابیں لکھ کر سماج کو حیران بھی کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس کے محکمے میں جہاں حس لطیف جیسی صنف خال خال ہی دکھتی ہے وہاں تین کتابوں کا مصنف ہونا بڑی بات ہے۔ حاصل محبت ‘ اور’حاصل لاحاصل ‘، جیسی شاہکار کتابوں کے مصنف کیپٹن(ر) لیاقت علی اپنی تیسری کتاب ’قطرہ قطرہ زندگی ‘ کے انتساب میں لکھتے ہیں۔
اخلاص کی ان حدوں کے نام
جو اکثر بے اعتباری کو چھولیتی ہے
اگر ہم وصرف انتساب پر ہی بات کریں تو اس پر کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں لیکن صرف ایک اس جملے پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ’’ کہ اخلاص کی ان حدوں کے نام جو اکثر بے اعتباری کو چھولیتی ہے‘‘ ایک ایسا سچ بیان کیا گیا ہے جسے ہم بحیثیت معاشرہ ہر روز محسوس بھی کرتے ہیں اور خود اس سے کئی بار گزرتے بھی ہیں۔ پھر آگے چل کر وہ ’’حرف سلامت‘‘ میں جو کچھ بیان فرماتے ہیں اس سے سے ظاہر ہوتا ہے مصنف خود کو اپنے ہی قائم کردہ احتسابی معیار کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں یہی وہ سوال ہے جسے اگر انسان حل کر لے تو یہ معاشرہ انسانوں کے رہنے کے قابل اور جنت نظیر بن سکتا ہی یعنی خود احتسابی۔ آپ دنیا کو دھوکا دے سکتے ہیں دنیا وی قانون سے اٹھکیلیاں کر سکتے ہیں لیکن خوداحتسابی کے ترازو میں جب خود کو تولتے ہیں تو پھر بچ نہیں سکتے ۔کیپٹن (ر ) لیاقت علی ملک’ حرف سلامت ‘میں خود اپنے ہی ضمیر کے کٹہرے میں خود کو کھڑا کر کے خود سے سوال کرتے ہیں ’’میں اپنے ظاہری باطنی تمام داغوں ۔سیا کاریوں،گندگی اور پلیدی کے باوجود عمر بھر خود کو دھوکا دیتا رہا۔ طویل مسافت خود کو کھوجنے کے اس سفر میں بلا آخر انہیں روشنی ملتی ہے اور برملا کہہ اٹھتے ہیں کہ اب مجھے کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا کیونکہ اب مجھے اپنی گندگی دیکھنے کیلئے پتھر کے شیشے کی ضرورت نہیں رہی میرا دل میری آنکھیں بن کر مجھے میرا اصل دکھاتا ہے اور یہ سچ ہے کہ جس نے اپنے دل کی آنکھ کھول لی اسے کسی شیشے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ’حرف ندامت‘ ہو یا’ حرف سلامت‘ جا بجا مصنف اپنی ذات کی نفی کرتے پائے جاتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے مصنف زندگی کی کئی حقیقتوں اور معنی کو پا چکے ہیں کہ ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی‘‘ شاعر نے لیاقت علی ملک ہی کیلئے کہا تھا ۔
کیپٹن(ر) لیاقت علی ملک روحانیت کے طرف مائل ہیں اور ان کی کتابوں میں روحانیت کی نہ صرف جھلک نظر آتی ہے بلکہ وہ اسے دور حاضر کے مسائل کا حل بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ’قطرہ قطرہ زندگی‘ میں انہوں نے سماجی مسائل خصوصاً صنف نازک کے ساتھ روا رکھے گئے معاشرتی و سماجی روئیوں کو نہ صرف موضوع بحث بنایا ہے بلکہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کتابوں کے حوالے سے بہت کچھ کہا لکھا جاسکتا ہے لیکن سر دست صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں زندہ رہنا ہے تو ’کتاب اور درخت‘ کے زریعے زندہ رہا جاسکتا ہے کیپٹن(ر) لیاقت علی ملک کے ہاتھ یہ نسخہ کیمیا آ گیا ہے اس لیے وہ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ادب کو بھی زندہ رکھنے کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔
ان کی جان ب سے ان کی کتاب ’قطرہ قطرہ زندگی ‘ جس کا حاصل موت ہے۔ تحفتاً پیش کی اور سچ پوچھیے تو کتاب سے اچھا تحفہ کوئی اور ہو نہیں سکتا اس لئے دوستوں کو کتابیں تحفتاً دیں لائبریوں کو فروغ دیں تاکہ کتاب کلچر پروان چڑھ سکے ۔ ہم سمجھتے ہیں ملک لیاقت علی نے ایک اچھا منتظم ہونے کے ساتھ ایک اچھاادیب ہونا بھی ثابت کیا ہے ان کی تینوں کتابیں جنہیں سنگ میل نے شائع کیا ہے مارکیٹ میں موجود ہیں اور عوام کے ساتھ خواص کے ہاتھوں میں زیر مطالعہ بھی وقت اور مورخ خود فیصلہ کرئے گا کہ ان کتابوں نے سماج کو بدلنے میں کتنا کردار ادا کیا ہے لیکن ایک بات جس کا اظہار ضروری ہے کہ اس بانجھ معاشرے میں لفظوں کی آ بیاری بہت ضروری ہے تاکہ بانجھ ذہنوں کی آبیاری ہو سکے اور وہ بھی آزادانہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا حامل بن سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button