CM RizwanColumn

ایران اب ثقافتی انقلاب کی راہ پر ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

قریباً دو ماہ قبل ایران کی مخصوص اخلاقی پولیس کے زیرحراست 22 سالہ ایرانی لڑکی مہسا امینی کی مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاکت کے خلاف ایران بھر میں خواتین اور معاشرے کے دیگر طبقات کے احتجاجی مظاہرے پچھلے دو ماہ سے جاری ہیں۔ ان مظاہروں نے ایرانی حکومتی ایوانوں اور اسلامی انقلاب کے بنیادی ڈھانچے تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب ایران کے سپریم لیڈر سید آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی ثقافتی نظام کی تعمیر نو کی حمایت کر دی ہے۔ ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس سلسلے میں ایران کی ثقافتی کونسل سے ایک ملاقات میں ملک کے ثقافتی نظام کی انقلابی تعمیر نو پر زور دیا ہے۔ اس موقع پر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ملک کے ثقافتی ڈھانچے میں انقلاب لانے کیلئے سپریم کونسل کو مختلف شعبوں میں ثقافت کی کمزوریوں کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں چند روز قبل ایرانی اٹارنی جنرل نے بھی کہا تھا کہ حجاب کے قانون کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ حجاب کے حوالے سے بنائے گئے قانون کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ ایران میں دو ماہ سے اسی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین خواتین احتجاج کے طور پر اپنے حجاب جلاتی ہیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اب تو ایران کی بہت سی خواتین نے احتجاجاً حجاب پہننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ فنون لطیفہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ اب تو کچھ مذہبی عناصر بھی اس احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ حکومتی اداروں کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں اسلامی نظام کی ترجیحات میں ترامیم پر کام کر رہی ہیں اور جائزہ لے رہی ہیں کہ کیا خواتین کو حجاب کی سختی سے پابندی کروانے والے اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تاہم کسی ایرانی پارلیمنٹیرین نے یہ واضح نہیں کیا کہ قانون میں کیا تبدیلی ہو گی۔ واضح رہے کہ چند سال قبل جب حجاب کا قانون لاگو کیا گیا تو بہت سی ایرانی خواتین تنگ جینز اور ڈھیلے ڈھالے اور رنگ برنگے حجابوں میں نظر آئیں لیکن رواں برس جولائی میں جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اس قانون کو سختی سے لاگو کرنے کا حکم دیا تو بہت سی خواتین نے اس قانون کی پاسداری نہیں کی تھی۔ دوسری جانب ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور ایران کے کرد گروہوں پر ملک میں ہنگامے کروانے کا الزام لگایا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک جنرل نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری ہونے والے مظاہروں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو درجن سے زائد بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ فسادات ایران بھر کے درجنوں شہروں میں اب بھی جاری ہیں،جن میں مختلف نسلوں اور طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ایران میں اس طرح کے مظاہرے 2019ء میں ایندھن کی قیمتوں کے خلاف بھی ہوئے تھے۔
ان مظاہروں کو ایرانی میڈیا میں’’خونی نومبر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تب ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ سب سے بڑا احتجاج ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 2019ء کے دوران ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں کریک ڈاؤن کے دوران 1500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ایران میں موجودہ احتجاج کا خوفناک اور انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایرانی اخلاقی پولیس کے خلاف مشتعل مظاہرین نے انقلاب ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کے پرانے گھر کو بھی جلا دیا ہے۔ اس موقع پر ایرانی حکومت کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن کے باوجود مظاہرین نے اپنی اس قومی یادگار کو بھی نہیں بخشا۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ ویڈیوز میں مظاہرین کو آیت اللہ خمینی کے پرانے گھر پر حملہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بانی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان کے اس گھر کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ویڈیوز میں خمینی کے آبائی شہر خمین میں واقع اس میوزیم کو آگ لگا کر اس کے آگے مظاہرین کو موجودہ ایرانی حکومت کے خاتمے کیلئے نعرے لگاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران میں مظاہروں کا یہ سلسلہ جو کہ اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکا ہے میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانی شہری شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے بعض گروپوں کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ کئی آزاد میڈیا ہاؤسز کو ان
احتجاجی مظاہروں کی کوریج سے بھی روک رکھا ہے۔ ایران کی عدالتیں بھی مظاہرین کے خلاف انتہائی قدم اٹھا رہی ہیں اور ان کیلئے سزائے موت تک کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ روز ایران کی اخلاقی پولیس کے خلاف مظاہروں میں شریک ایک شخص کو ‘فساد برپا کرنے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ مظاہرین میں سے پہلے شخص کو موت کی سزا پر ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ محسن شکاری نامی اس شخص کو ایک انقلابی عدالت کی جانب سے ’’خدا کے ساتھ دشمنی‘‘ کے جرم کا مرتکب پایا گیا جس کے بعد اسے آٹھ دسمبر کی صبح پھانسی دے دی گئی۔ محسن شکاری پر الزام تھا کہ اس نے ستمبر میں تہران کی ایک مرکزی سڑک پر رکاوٹ پیدا کی اور نیم فوجی دستوں کے ایک اہلکار کو خنجر مار کے زخمی کیا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن کا کہنا تھا کہ محسن کے خلاف عدالتی کارروائی محض دکھاوا تھا اور اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ادھر ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اگر ایرانی حکام کو بین الاقوامی سطح پر فوری نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کو روزانہ کی بنیاد پر پھانسی چڑھانے کا سلسہ شروع ہو جائے گا۔ ایران کی انقلابی عدالتوں کی نمائندہ نیوز ایجنسی میزان کے مطابق عدالت نے یکم نومبر کو محسن شکاری کو لڑائی جھگڑے اور مارنے کی نیت سے ہتھیار نکالنے، خوف و ہراس پھیلانے، معاشرے میں نقضِ امن پیدا کرنے اور خدا کے ساتھ عداوت کے جرائم کا مرتکب پایا۔ محسن شکاری نے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی لیکن 20 نومبر کو سپریم کورٹ نے انقلابی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ گزشتہ ماہ ایران کے سرکاری ٹی وی پر مقدمے کی کارروائی براہ راست بھی دکھائی گئی تھی۔ واضح رہے کہ حالیہ عرصے میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث ہونے کے جرم میں عدالتیں اب تک دس افراد کو سزائے موت سنا چکی ہیں اور ان تمام پر خدا کے ساتھ عداوت یازمین پر فساد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان افراد کے نام ابھی تک نہیں بتائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ایران میں موت کی سزائیں دینے کا مقصد مقبول عوامی تحریکوں کو مزید دبانا اور لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ انقلابی عدالتیں ملک کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے اداروں کے تابع کام کرتی ہیں اور انتہائی غیر منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد سخت سزائیں سناتی ہیں اور سارا عمل اکثر تیزی میں کیا جاتا ہے اور اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ کئی ایرانیوں کا خیال ہے کہ ان مظاہروں نے معاشرے پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور یہ مظاہرے ایرانی حکومت کیلئے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایساعوامی بغاوت میں حصہ لینے والوں کو ڈرانے اور دوسروں کو اس تحریک میں شامل ہونے سے روکنے کیلئے کیا جا رہا ہے،اپنے ہی عوام کے احتجاج کے خلاف کسی حکومت کی اس قدر ظالمانہ روش اور انتہائی اقدامات کی مثال آج کی جدید دنیا میں غور طلب ہے۔ ایرانی حکومت کے ایسے اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایران ایک نئے ثقافتی انقلاب کی زد میں ہے۔ کیونکہ ایرانی خواتین سخت ترین اخلاقی پابندیوں کے خلاف پچھلے دوماہ سے سروں پر کفن باندھ کر ایران کی سڑکوں پر نکلی ہوئی ہیں جو کہ بالآخر ایک بڑے انقلاب کی خبر لے کر اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button