Editorial

حکومت ، پی ٹی آئی میں مصالحت کی کوششیں

وفاقی حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان مصالحت کی حتمی کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور اسی سلسلے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے چندروز کے دوران تیسری ملاقات کی ہے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ملاقات میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے،استعفے دینے اور سیاسی و اقتصادی معاملات پر گفتگو ہوئی ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد اور سیاسی استحکام کے لیے بھی اپوزیشن سے تعاون مانگاہے اور صدر مملکت سے ملاقات میں یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے، اِدھر مسلم لیگ قاف کے سربراہ اور مصلحت پسند سیاست دان چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سیاست دانوں کے رابطے سے معیشت کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے، عمران خان بات کرنے کے لیے راضی ہوں تو خود وزیر اعظم سے بات کروں گا۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی نے آئینی و قانونی طریقے سے حکومت کو ہٹانا ہے تو ہٹادے۔صدر مملکت سے معیشت پر بات ہوتی ہے ،پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ الیکشن پر بات کی جائے،ان کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا،جب کیا جائے گا تو ہم بھی کریں گے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر ابھی تک تحریک انصاف حتمی فیصلہ نہیں کرسکی اورصورت حال کم و بیش وہی ہے جو راولپنڈی کے جلسہ کے بعد تھی۔ عمران خان کا موقف ہے کہ وہ رواں ماہ ہی دونوں اسمبلیاں توڑ دیں گے اور اِس بیان کی تصدیق وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمودقریشی نے اس طرح کی ہے کہ پارٹی چیئرمین چند روز میں پنجاب اورخیبر پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںجس کا وہ اعلان کر دیں گے ۔شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ صدر علوی نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی کہ فاصلے کم ہوں اور ہم آگے بڑھ سکیں لیکن پیش رفت نہ ہوسکی اور معاملہ جوں کا توں رہاہے۔ پس متذکرہ صورت حال سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور دونوں فریق مذاکرات کے نتائج کے منتظر ہیں لیکن دونوں جانب سے دوسرے کو تحمل اور مثبت پیش رفت کی نصیحت تو کی جارہی ہے مگر اپنے طور پر کوئی فریق لچک دکھانے کو تیار نہیں جبھی مذاکرات کی حتمی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں۔ قبل ازیں بھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سیاسی حریفوں کو ایک جگہ بٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن تب مایوسی کا سامناکرنا پڑے تھا اور پھر چند روز قبل جب عمران خان نے مذاکرات کی مشروط پیش کش کی تو وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف کی زیر صدارت پارٹی اجلاس میں اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے غیر مشروط مذاکرات کا مطالبہ کیاگیاتاہم صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی اوروفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کو جہاں ایک طرف حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف اِن
کوششوں کے مثبت نتائج سے متعلق بھی مایوس کن خبریں کان پڑ رہی ہیں مگر پھر بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ سیاسی قیادت حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ایسے فیصلے پر متفق ہوجائے، جس کے نتیجے میں طویل عدم استحکام کا خاتمہ اور عوام بھی راحت محسوس کرسکیں۔ بلاشبہ دونوں حکومت اور تحریک انصاف سیاسی بے یقینی کے منفی اثرات کو محسوس بھی کررہی ہے اور دیکھ بھی رہی ہے جبھی ایوان صدر میں اِس بے یقینی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے ادوار ہورہے ہیں مگر افسوس کہ کئی ماہ سے جاری اِس مشق کے مثبت اور نتیجہ خیز نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب فریقین اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کرتے اور دوسرے کے موقف کو بے وزن اور بے توقیر سمجھتے ہیں مگر ہمارے نزدیک سیاست میں ڈیڈ لاک نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اور سیاست دان درمیانی راستہ نکالنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں پارلیمانی نظام سب سے کامیاب نظام تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں فریقین چھوٹے سے چھوٹے معاملے کو بھی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی بجائے عوام سے رابطہ کرکے فریق دوم کو دبائو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور بظاہر کئی دہائیوں سے ایسا ہی ہورہا ہے کہ سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتیں اور ایک سے دوسرے انتخاب کا درمیانی عرصہ رابطہ عوام کے ذریعے حکومت کو دبائو میں لانے میں گذاردیتی ہیں حالانکہ حرف عام میں اسی کو سیاسی عدم استحکام کہا جاتا ہے مگر ہماری سیاست میں ایسا تسلسل سے کیا جانا نظر آتا ہے اور کوئی بھی فریق دوسرے کے مینڈیٹ اور سیاسی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا مگر جہاں مفادات میں مماثلت نظر آئے سبھی اختلافات ایک طرف رکھ دیئے جاتے ہیں، مرکز میں رواں سال آنے والی تبدیلی نے جہاں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا ہے وہیں ہمارے جمہوری نظام اور طرز عمل پر بھی کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں جن کا آسان جواب بظاہریہی دیاجاتا ہے کہ تبدیلی کے لیے آئینی طریقہ کار اپنایاگیا مگر کیا حصول اقتدار کی اِس کوشش نے ملک و قوم کو مزید عدم استحکام اور انتشارکا شکار نہیں کیا؟ کون سی سیاسی قوت اِس حقیقت سے انکار کرتی ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام سے ترقی آتی ہے اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، مگر اِس کے باوجود سیاسی حربے کے طور پر سیاسی عدم استحکام پیداکرکے حزب اقتدار کو مصائب میں ڈالے رکھنا سیاست کا قطعی مناسب طریقہ نہیں۔پاکستان کو گزشتہ تین دہائیوں سے معاشی مشکلات کا سامنا ہے مگر ان تیس سال میں کبھی سیاسی قیادت اِس گمبھیر مسئلے پر متحد اور متفق نظر نہیں آئی اور ہر سیاسی قیادت اِسی وسوسے میں مبتلا ہے کہ شاید اسی کے پاس معاشی مسائل کا حل ہے اور باقی تمام سیاسی قوتیں ناکام ہیں، افسوس تو یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی قوتوں کو زیادہ مجبور کرتے ہیں حالانکہ ان کو عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی مگر عدم استحکام پیدا کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے لہٰذا جمہوری قوتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حربہ وہ آج استعمال کریں گے وہی ان پرکل آزمایا جاسکتا ہے، لہٰذا اپنے مینڈیٹ کی حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے گر ہم دوسری طاقت کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے۔ ایوان صدر حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سیاسی تنائو کے خاتمے کے لیے کردار اداکررہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ محب وطن تمام سیاسی قوتیں موجودہ سیاسی و معاشی انتشار کے خاتمے کے لیے سنجیدہ طرز عمل اختیار کریں گی، فریقین کو زمینی حقائق اور مستقبل کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اسی میں سیاسی قوتوں اور ملک و قوم کا مفاد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button