Anwar Ul HaqColumn

عسکری سیاسی اور معاشی صورتحال ۔۔ میاں انوار الحق

میاں انوار الحق رامے

 

نئے سپہ سالار کی آمد کیا موثر عسکری ادارے کی سوچ، طرز عمل، حکمت عملی اور کام میں تبدیلی کا سبب بنے گی؟ اگر حالات ہموار اور معمول کے مطابق ہوں تو اداروں کی پالیسی میں تسلسل اور استمرار ہوتا ہے۔ سپہ سالار کی تبدیلی ایک عام سادہ سا عمل ہوتا ہے۔ پاکستان چونکہ غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے اس لیے آرمی چیف عاصم منیر کو ادارے کی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔دوسرا جائزہ اس عمل کے بارے میں ہے جو مسلح افواج نے از خود قومی اور ذاتی ترغیبات کے حوالے سے اٹھا لیا تھا،یعنی سیاسی معاملات میں مداخلت،سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کرنے میں ہی فوج ملک اور قوم کی بھلائی ہے۔ جب فوج براہ راست یا بلاواسطہ سیاستی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو فوج فریق بن کر دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کھڑی ہوجاتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم کا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خونچکاں حادثہ بھی اسی سبب سے پیش آیا تھا۔ جنرل عاصم منیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتا افراد کے سنگین معاملات،سینیٹر اعظم سواتی، شہباز گل، ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے الزامات سے بری الذمہ ہونے کیلئے کسی قسم کے فورم کی تشکیل کریں۔ جنرل صاحب کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کو آگاہ کردیا جائے کہ سیاست اور اقتدار کے کھیل سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، عسکری ایوانوں میں گیٹ نمبر چار کو مستقل مقفل کر دیا گیا ہے۔ ملک کےتمام معاملات کرپشن اور انتخابات سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ عسکری قیادت کیلئے مناسب طرز عمل یہ ہے کہ اہل صحافت سے یکساں سلوک روا رکھیں اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ صحافیوں کی فہرست سے نجات حاصل کر لے۔ کسی صحافی کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہو کہ میرے ذرائع عسکری ہیں۔ فوج کو بیانیہ کی تشکیل دینے اور اپنے آپ کو جغرافیائی سرحدوں کے حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کے محافظ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔
قومی بیانیہ کی تشکیل بھی فوج کے دائرہ اختیار سے باہر اور تشکیل ایک فطری عمل ہے جس کا تعلق عوام اور سماج سے ہوتا ہے اس کیلئے ادارے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ خاندان، مکتب، مدرسہ، عبادت گاہیں بنائی جاتی ہیں۔ معیشت کا سدھار، فیڈریشن کی حفاظت، خارجہ پالیسی کی تشکیل، سب سول حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہوتے ہیں۔ فوجی قیادت کو اپنے اوپر از خود پابندی لگا لینی چاہیے کہ آئندہ کوئی آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں لے گا۔ پاکستان گزشتہ سال سے مستقل سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے۔ عجب اور پریشان کن صورتحال ہے کہ عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ایک کے بعد دوسرا سیاسی بحران مگرمچھ کے طرح منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ لانگ مارچ کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کی باز گشت سنی جا رہی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کا تحلیل خدشات میں اضافہ کر رہا ہے۔ ممبران اس مخمصے میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ آئندہ کامیابی کیلئے پارٹی ٹکٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی تکمیل کی بھی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ ممبران صوبائی اسمبلی کو مستعفی ہونے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ چند دنوں میں ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا، دوبارہ انتخابات کروانے کیلئے کم از کم 30 ارب روپے کی ضرورت پڑے گی۔ تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پہلے ہی سے برسراقتدار ہے، اگر الیکشن جیتنے کے بعد دوبارہ برسراقتدار آجائیں تو وفاق اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ تحریک انصاف یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ انتخابات چاہے مارچ میں ہوں یا اکتوبر میں جیتنا تحریک انصاف نے ہی ہے۔تحریک عدم اعتماد سے پہلے پی ڈی ایم کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ تحریک انصاف کا گھر جانا ضروری ہے نئی حکومت آنے سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ملک کے معاشی حالات مزید تنزلی کا شکار ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر انٹر بینک میں ایک ڈالر 179روپے کا تھا۔تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دور میں ڈالر کی قیمت میں54 روپے اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ پی ڈی ایم کی سات ماہ کی حکومت میں ڈالر75 روپے بڑھا۔ مہنگائی کے اعداد و شمار بھی خوف زدہ کرنے والے ہیں۔مارچ 2021ء میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد تھی، جو پی ڈی ایم کی تین ماہ کی حکومت میں دگنا اضافہ کرکے 25 فیصد ہو گئی تھی۔ آج مہنگائی کی شرح 29 فیصد ہے۔ سات ماہ پہلے ماہانہ برآمدات 2 ارب 37کروڑ ڈالر تھیں۔ موجودہ حکومت برآمدات میں اضافہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت نے برآمدات کا ہدف 38 ارب ڈالر طے کیا تھا جس کو حاصل کرنا ممکن نظر نہیں رہا، شدید خطرات ہیں سالانہ برآمدات کا حجم گزشتہ سال سے کم ہو گا۔ مالی سال جو2022ء میں سالانہ برآمدات 31ارب ڈالر تھیں جو 2021ء کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تھیں۔ 2021ء میں برآمدات 25ارب ڈالر اور 30کروڑ ڈالرز تھیں۔تحریک انصاف کے دور میں برآمدات میں کافی اضافہ ہوا تھا۔مارچ 2022ء کی نسبت اندرون ملک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں قریباً75روہے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں اس وقت قیمتیں گزشتہ گیارہ ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی خوف ناک اضافہ ہو چکا ہے مارچ 2022ء کی نسبت شرح سود میں اضافہ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے دور میں ٹیکسٹائل صنعت پوری استعداد کے ساتھ چل رہی تھی۔ملازمین زیادہ اور ماہرین کم پڑ گئے تھے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار زائد ٹکسٹائل یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں 20 بڑے کارپوریٹ اداروں نے ریکارڈ منافع کمایا تھا جس کا اثر عامی آدمی کو بھی منتقل ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ موجودہ اتحادی حکومت کے دور میں کارپوریٹ سیکٹر وسوسوں کا شکار ہو چکا ہے آٹو مینو فیکچرز ماہانہ صرف پندرہ دن کام کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ناقابل برداشت نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ قریباً 93 فیصد ہو چکا ہے مارچ 2022ء میں صرف 5فیصد تھا۔ پاکستانی بانڈ کی عالمی مارکیٹ میں قیمت آدھے سے زیادہ کم رہ گئ ہے۔
جبکہ سات ماہ قبل بانڈز منافع پر فروخت کئے جا رہے تھے۔ جولائی سے اکتوبر تک ترسیلات زر میں 10ارب ڈالرز کےقریب کمی واقع ہوئی ہے گزشتہ سال کے اس دورانیہ کے مقابلے میںکم ہوئی ہیں۔ محسوس ہو رہا ہےکہ2023ء کے اختتام پر ہماری برآمدات 30 ارب ڈالر تک رہ جائیں گی۔ تحریک انصاف کے دور میں اس میں مستقل اضافہ ہو رہا تھا، محکمہ وزارت پیدوار کے زرائع کے مطابق حکومت نے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے چینی کمیاب ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button