Editorial

گمبھیر معاشی مسائل اور افواہیں

فنانس ڈویژن نے مبینہ معاشی ہنگامی تجاویز کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی ایمرجنسی لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ اِس پیغام کا مقصد ملک میں معاشی صورت حال کے بارے میں غیر یقینی صورت حال پیداکرنا ہے اور اِسے صرف وہی لوگ پھیلا سکتے ہیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ اورخوشحال نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان کی معیشت میں موروثی طاقت اور تنوع کے پیش نظر پاکستان کا سری لنکا سے موازنہ کرنا بھی بالکل نامناسب ہے اور دراصل موجودہ مشکل معاشی صورت حال بنیادی طور پر اجناس کی سپرسائیکل، روس یوکرین جنگ، عالمی کساد بازاری، تجارتی سرگرمیوں، فیڈ کی پالیسی ریٹ میں اضافہ اور تباہ کن سیلاب سے تباہی جیسے خارجی عوامی کا نتیجہ ہے اورحکومت اس طرح کے بیرونی عوامل کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے۔ فنانس ڈویژن کا موقف اپنی جگہ لیکن دوسری طرف اِس امر کی تردید بھی ممکن نہیں کہ کراچی پر پچپن لاکھ ڈالر کے لگ بھگ شپمنٹ کھڑے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق کمرشل بینکوں نے زرمبادلہ نہ ہونے کو جواز بناکر دستاویزات کلیئر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اسی لیے خوراک میں استعمال ہونے والی اشیا کی عام بازاروں میں قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور تاحال اِس معاملے پر مثبت پیش رفت کی اطلاع نہیں ہے اور ویسے بھی ملکی معاشی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، معیشت سے متعلق کوئی بھی افواہ ہمہ وقت حقیقت کے قریب معلوم ہوتی ہے، حالات ہی ایسے ہیں، سیاسی بے یقینی نے معاشی بے یقینی کو ختم یا کم کرنے کی بجائے مزید بڑھادیا ہے، معیشت کے نام پر کئی دہائیوں سے سیاست ہورہی ہے مگر معیشت بہتر ہونے کی بجائے روز بروز تنزلی کا شکار ہورہی ہے، ہر دعویٰ اور یقین دہانی بے سود اور ہوائی ثابت ہوچکے ہیں اور لاعلاج مرض کی طرح حالات بگڑتے جارہے ہیں مگر ارباب اختیار کی یقین دہانیاں ملکی حالات اور عامۃ الناس کی مشکلات کے برعکس نظر آرہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں ملک و قوم کی معاشی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتی ہے، مگر اقتدار اِسی کو ملتا ہے جس کا دعویٰ عوام کو زیادہ لبھانے والا اور پرکشش ہوتا ہے پس اقتدار حاصل کرکے وہ تمام دعوے زمین بوس ہوجاتے ہیں، عوام ہر بار نیا تجربہ کرتے ہیں مگر نتیجہ وہی نکلتا ہے نہ ہی ملک کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے مسائل، جن میں معاشی مسائل سب سے زیادہ اہم ہیں۔ آنے والے وطن عزیز کے نام پر عوام سے قربانی مانگتے ہیں اور پھر عوام پر ماضی کی غلطیوں کا بوجھ ڈال کر اِس موقف کے ساتھ بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ پچھلی حکومت کا کیا دھرا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے قبل عامۃ الناس مہنگائی کو بنیادی مسئلہ گردانتے تھے ، تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو کرونا وائرس نے پوری دنیا کی کایا پلٹ دی، سیدھے چلتے کام الٹا ہونا شروع ہوگئے، کوئی بھی ملک و قوم اِس عفریت سے محفوظ نہیں رہا، ہم تو کسی کھاتے میں ہی نہیں لہٰذا ہمارا متاثر ہونا یقینی تھا سو ہم متاثر ہوگئے مگر کرونا وائرس پر عالمی سطح پر
قابو پانے کے باوجود ہم کرونا سے بڑے، یعنی معاشی بحران میں پھنس گئے، بلاشبہ مہنگائی عالمی مسئلہ بن چکی ہے مگر وہاں سیاسی قیادتیں ایسے نفاق کاشکار نظر نہیں آتیں اور سب سے بڑھ کر وہاں حقائق کو مسخ کرنے کی روایت نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، سبھی کا مطمع نظر ریاست اور عوام ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یکسر اِس کے برعکس مطمع نظر رہا ہے جس نے قوم کو بے حال جبکہ گنتی خاندانوں کو خوش حال کردیا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ قرض اُتارنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، مگر کب تک ہم اسی حکمت عملی پر عمل کرتے رہیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ڈالر کو کھلا چھوڑا جو موجودہ حکومت کے دور تک کھلا رہا، ڈالر سے متعلق کارگر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے قومی بینکوں ، ایکسچینج کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے ڈالر کے ذریعے جو پایا اور کھویا اب ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آرہا ہے، مگر تب بھی ریاست اور ادارے موثر ثابت ہوئے اور نہ ہی اب ہورہے ہیں کیونکہ ذمہ داران کو گرفت میں لانا خود کو گرفت میں ڈالنے کے مترادف ہے بہرکیف پانی سر سے گذرنے کے بعد قومی بینک نے ملک میں کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایات دیں کہ کوئی بھی شخص یومیہ دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ اور سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی نقد یا ترسیلات زر کی صورت میں خریداری نہ کرے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں، ڈالرکے مقابلے میں ہماری کرنسی بدحال افغانستان کی کرنسی سے بھی نیچے جاچکی تھی، ڈالر کی قدربڑھنے کی وجہ سے مالیاتی ادارے اور مال دار شخصیات ڈالر کو زخیرہ کررہی تھیں لیکن ہم بطور تماشبین سب ہوتا دیکھ رہے تھے، اب درحقیقت حالات یہی ہیں کہ ملک کو ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے ہم نے ڈالر دینے ہیں تبھی درآمدات مارکیٹ تک پہنچیں گی مگر ڈالر لائیں کہاں سے، ماسوائے طفل و تسلیوں اور بلند و بانگ دعوئوں کے؟ معاشی حالات گراوٹ کا شکار تھے مگر ارباب اختیار سیاسی دائو پیچ کھیل کر اپنی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کررہے تھے اور بدقسمتی سے آج بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے مگر اِس کے نتیجے میں ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں، عامۃ الناس تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، ہمہ وقت ڈیفالٹ کے خطرات لاحق رہتے ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی ناکافی کوششیں ہیں۔ مسئلہ صرف ڈالر کا نہیں بلکہ ہماری غیر سنجیدگی کا ہے، ہم سیاست کو ریاست پر ترجیح دے کر اپنے حالات تو بدل لیے ہیں لیکن ملک و قوم کو بیک وقت کئی طرح کے چنگل کا شکار کرادیاہے۔ ایک افواہ کی بنیاد پر کسی بھی چیز کا زخیرہ کردیا جاتا ہے، کبھی گندم، کبھی چینی، کبھی ڈالر غرضیکہ شاید کفن تک ہر چیز زخیرہ کرکے راتوں رات مال دار ہونے کی خواہش نے سیاسی قیادت اور عوام کے درمیان بہت بڑی خلیج پیداکردی ہے، عامۃ الناس کا بدلتا رویہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے، معاشی میدان میں تبھی تیزی دیکھنے میں آتی ہے جب ہمیں مزید قرض دے کر جکڑ دیاجاتا ہے اور ہم بغلیں بجاتے اِس کا جشن مناتے ہیں، وقت گزاری کی حکمت عملی دیرپا نہیں ہوتی مگر قائدین کے پاس شاید اِس کے سوا کوئی حل ہی نہیں لہٰذا ملک و قوم کو قرض کے بوجھ تلے دبایا جارہا ہے، ہم قرض اُتارنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس قرض اُتارنے کے لیے بظاہر کوئی موثر حکمت عملی ہے، لہٰذا گمبھیر معاشی حالات مزید گمبھیر ہورہے ہیں اور عامۃ الناس اِن سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ معاشی ٹیم کی قابلیت اپنی جگہ لیکن قرضوں کے پہاڑ، ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں، عالمی کساد بازاری اور وطن عزیز کو چہار اطراف سے باندھ دینے کی اغیارکی حکمت عملی نے ہماری سوچوں کو محدود کردیا ہے، لرزتی دیوار کے سائے میں کھیل کود غیر سنجیدگی کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے، ترقی یافتہ اقوام اور اُن کے رہنمائوں کی شبیہ اور طرز عمل ہم سے یکسر مختلف ہوتا ہے، وہاں ملک و قوم جبکہ یہاں مخصوص خاندانوں کے مفاد کو مدنظر رکھاجاتا ہے لہٰذا نتائج میں مماثلت کا تصور قطعی ناممکن ہے مگر رعایا کے پاس ماسوائے خاموش تماشائی کے طور پر سب کچھ ہوتا دیکھنے کے سوا کچھ کرنے کی طاقت نہیں۔ ہم جن معاشی حالات سے دوچار ہیں اس کی پرورش ارباب اختیار نے برسوں نہیں بلکہ دہائیوں کی ہے جبھی آج وطن عزیز معاشی مسائل سے دوچار اور ڈیفالٹ کے خطرات ہمہ وقت منڈلارہے ہیں۔ ایسا ہی ہم نے سیاسی میدان میں بھی کیا ہے جبھی موجودہ قیادت ہمیں میسر آئی ہے، پس سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ ہمارے ویژن اور صلاحیتوں کا نتیجہ ہے جو آج بحرانوں کی صورت میں قوم کی خوشیوں کو بھی نگل رہا ہے اور ملکی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کررہا ہے، چونکہ قیادت کی ترجیح قوم کے سامنے ہمیشہ رہی ہے لہٰذا لوگ کسی بھی موقعے سے فائدہ اٹھانے سےگریز نہیں کرتے، لہٰذا رہنمائوں کی بجائے مافیاز کی اکثریت وجود میں آکر ملک و قوم کو گھیرے میں لے چکی ہے، راتوں رات امیر بننے کی خواہش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی لیکن رعایا روٹی کے لقمے گن گن کر کھانے پر مجبور ہوچکی ہے پس ہمارا شمار اُن اقوام میں ہورہا ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی سے لاتعلق صرف روٹی کے حصول کے لیے اگلی صبح کا انتظار کرتی ہے مگر پھر بھی ہر نئے دن کے ساتھ وہی روٹی ہماری دسترس سے دور ہورہی ہے۔ جو جتنا صاحب اختیار اور مال دار ہے، اِس کو اتنے ہی وسائل اور اختیارات حاصل ہیں، قوم سے قربانیاں مانگنے کی روش نے قوم کو معاشی لحاظ سے نڈھال کردیا ہے، اب حقائق چھپانے سے بھی نہیں چھپتے لہٰذا ارباب اختیار بالخصوص تمام سیاسی قیادت کے لیے حالات لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک روز قبل ہی کہا تھا کہ ملک کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ رات بھر نیند نہیں آتی، پس اس سے بری صورت حال سے رعایا گذررہی ہے جس کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیںبہرکیف غفلت نے ہمیں اِس نہج پر پہنچادیا ہے جہاں مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اِس لیے سیاسی قیادت کو فی الوقت معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک پیج پر آنا چاہیے کیونکہ معاشی حالات قابو میں ہوں گے تو ہی رعایا بھی مطمئن ہوگی اور ہماری قومی سلامتی کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا بصورت دیگر حالیہ روش معاشی مسائل کو مزید گمبھیر بنادے گی اور پھر کسی کے پاس بھی اِس کا حل نہیں ہوگالہٰذا معاشی بحران سے نکلنے کے لیے میثاق معیشت بھی کیا جائے اور مافیاز کا بھی کچلا جائے جنہوں نے ڈیفالٹ کے خطرات کو ہماری دہلیز تک پہنچادیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button