Columnمحمد مبشر انوار

جھٹکا .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

موجودہ پاکستانی سیاسی اُفق پر پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت کا جھکاؤ بالعموم اقتدار کے اس سوتے کی طرف رہتا ہے جو یقینی طور پر مسلمہ جمہوری روایات کے برعکس ہے کہ جمہور سے رابطہ،واسطہ اور بہبود بس واجبی سی نظر آتی ہے۔ کل تک یہ سیاستدان ڈھکے چھپے الفاظ میں اس کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن حالیہ رجیم چینج کے بعد بتدریج مگر انتہائی کم عرصہ میں یہ حقائق ’’جید سیاستدان ‘‘اپنے مختلف بیانات اور انٹرویوز میں برملا کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ وزیراعلیٰ پنجاب کے دو انٹرویوز زیر بحث ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں انٹرویوز میںان کی گفتگو میں واضح طور پر تضاد پایا جاتا ہے بالخصوص اسمبلی کی تحلیل پر وہ بیک وقت یہ کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے ہی عمران خان انہیں اشارہ کریں گے وہ اسمبلی تحلیل کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے جبکہ دوسری طرف وہ اس امر کا اظہار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مشاورت بہرطور کرنی چاہیے اور یہ کہ انہیں موجودہ سسٹم مارچ تک ایسے ہی چلتا نظر آ رہا ہے،اسمبلیاں فوری تحلیل ہوتی نظر نہیں آ رہی۔مراد یہ ہے کہ ایک طرف وہ تحریک انصاف کی پالیسی کو بھی تسلیم کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ،خدا جانے اپنی یا اپنے ’’خصوصی مشیران‘‘ جن کے مشورے کی وجہ سے وہ پنجاب میں عمران خان کے ساتھ شریک ہوئے تھے،کے مجوزہ منصوبے کے مطابق لائن لیتے دکھائی دیتے ہیں۔چودھری پرویزالٰہی کے دوسرے انٹرویوکے مطابق،وہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف اسمبلیاں مارچ تک قائم رہیں بلکہ عام انتخابات کا انعقاد بھی اکتوبر میں ہو،جبکہ تحریک انصاف کی پالیسی فوری طور پر اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہاں عمران خان کی غلطی بظاہر نظر آ رہی ہے کہ لانگ مارچ کی اختتامی تقریب پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو اعلان عمران خان نے کیاتھا،اس کے پس منظر میں اتحادیوں سے مشاورت شامل نہیں رہی،جس کی بظاہر وجہ ’’سرپرائز‘‘ کے علاوہ رازداری ہو سکتی ہے لیکن اس کا خمیازہ عمران خان کو بھگتنا بھی پڑ سکتا ہے۔
علاوہ ازیں! جوسب سے بڑی مشکل عمران خان کو درپیش ہے وہ الیکشن کمیشن کی ہے کہ عمران خان کے خلاف مسلسل اقدامات الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے،جس کے ہوتے ہوئے عمران خان عام انتخابات میں جانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ بالفرض بات چیت کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور معاملات اسی طرح چلتے ہیں،اس صورت میں عمران خان کا لائحہ عمل کیا ہوگا،یہ ایک الگ سوال ہے۔ ویسے تو صرف عمران خان ہی نہیں پی ڈی ایم بھی اس وقت عجیب مخمصے اور مشکل صورتحال کا شکار دکھائی دیتی ہے کہ سیاسی صورتحال میں کوئی بھی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا کہ اگر عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو یقینی طور پر نگران سیٹ اپ بنے گا،جو ضروری نہیں کہ عمران خان کی توقعات کے مطابق بنے اور پی ڈی ایم کسی بھی صورت عام انتخابات میں جانے کیلئے تیار نہیں کہ اولاً انہیں اپنی شکست کا خوف دامن گیر ہے اور دوئم ابھی این آر او ٹو پر کام باقی ہے۔
موجودہ الیکشن کمیشن کی فعالیت عمران خان کے خلاف ہی نظر آ رہی ہے اور کوئی بھی غیر جانبدار اس سے انکار نہیں کر سکتا،دہائیوں سے الیکشن کمیشن
کے سامنے پڑے مقدمات کہہ لیں یا دیگر سیاستدانوں کی بے ضابطگیاں،ان پر الیکشن کمیشن کی فعالیت نظر نہیںآتی۔دوسری طرف عمران خان کے خلاف مقدمات میں اس قدر تیزی ہے کہ غالباً سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود،صرف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس پر نہ صرف فیصلہ سنا دیا گیا بلکہ اب اس پر عملدرآمد کی کارروائی بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اداروں کے روبہ عمل آنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن عوام الناس کی خواہش ہے کہ ادارے ایک طرح کے جرم پر بلاامتیاز ہر مجرم کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ بروئے کار آئیں مخصوص حالات،پس منظر اور مطمع نظر کے باعث جانبدارانہ رویہ؍کارروائی اداروں کی اپنی ساکھ کیلئے نقصان دہ تو ہے اس کے ساتھ ساتھ اس ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق بھی ہے جس کی وجہ سے ہم آج ان حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے پر عملدرآمد کی کارروائی کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف ایسی کارروائی بروئے کار آتی ہے اور انہیں اپنی جماعت کی سربراہی سے قانونی طور پر ہٹایا جاتا ہے تو لازمی امر ہے کہ اس پر عمران خان کو لچک دکھانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تا کہ دیگر نااہل سیاستدان،بالخصوص نواز شریف کی نااہلی کو ختم کیا جا سکے۔ ایسی صورت میں عمران خان کے پاس کیا بچے گا؟کیا وہ سیاست سے باہر ہو جائیں یا سمجھوتہ کرلیں؟اگرسمجھوتہ کرتے ہیں تو یہ باور کروایا جائے گا کہ عمران خان بھی ان سیاستدانوں کی طرح ہی ہیں،جن کے خلاف وہ جدوجہد کرتے رہے ہیںلہٰذا کان نمک میں سب ایک جیسے ہیں اور اگر عمران خان سیاست سے باہر ہو جاتے ہیں تب بھی نواز شریف کو اہل کروانے
کے دیگر جتن کئے جائیں گے۔ عمران خان کے سیاست سے باہر ہونے پر،تحریک انصاف میں صف دوم کی قیادت کے نام قرعہ نکلے گا،جو تحریک انصاف کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی،گو کہ نواز شریف آج بھی نون لیگ کے فیصلے کرنے کے مجاز ہیں اور مسلم لیگ نون انہیں ہی قائد تسلیم کرتی ہے لیکن کیا عمرا ن سیاست سے باہر ہو کرایسا کردار نبھا سکیںگے؟تحریک انصاف کی صف دوم کی قیادت پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح تر ہے کہ اس قیادت کی ترجیحات کیا ہیں؟کئی ایک تو تحریک انصاف میں شامل ہی اسی لیے ہوئے تھے کہ کسی وقت میں اس جماعت کی قیادت ان کا نصیب ہو گی،جو پوری ہوتی نظر آ رہی ہے بشرطیکہ عمران خان باقاعدہ نااہل قرار دے دئیے جاتے ہیں۔
قاف لیگ بطور اتحادی جماعت،اپنی حیثیت خود مشکوک کرتی جارہی ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قیاس،الجھن یا کنفیوژن باقاعدہ پیداکی جا رہی ہے اور عمران خان کے گرد گھاگ شکاری شکنجہ کسنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ اس سیاسی جھنڈ میںوہ اکیلا اس طرزسیاست کے خلاف صف آراء ہے۔ چودھری کو یہ تو بخوبی علم ہے کہ اس وقت عمران خان مقبولیت کی جس معراج پر ہے،آنیوالے سیاسی منظر نامے میں اس کے بغیر سیاسی مستقبل کا سوچنا بھی بہت مشکل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چوہدری یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی وہ وقت ہے جب عمران خان کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔چودھری سیاست میں گھاٹے کا سودا کرنے کے قائل نہیں اور نہ ہی سیاست میں معاف کرنا مناسب سمجھتے ہیں البتہ تحمل،برداشت اور وقت کا انتظار وہ بخوبی کرتے رہے ہیں اور وقت آنے پر تمام حساب کتاب مع سود لوٹانے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔رجیم چینج آپریشن پر قاف لیگ نے انتہائی خوبصورتی سے،وفاق اور پنجاب میں اپنی حیثیت کا بھرپور استعمال کیا اور بظاہر دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب بھی ہوگئے کہ چودھری برادران میں پھوٹ پڑ چکی ہے لیکن یہ سب سیاسی داؤ پیچ ہی ثابت ہو رہا ہے اور اپنے انٹرویوز میں چودھری کھل کراس کا اظہار کر رہے ہیں۔اس پس منظر میں جب معاملات اس قدر پیچیدہ ہو چکے ہوں،کسی بھی حتمی نتیجہ کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے اور سب کی نظریں اس وقت چودھری پرویز الٰہی پر ہیں کہ وقت آنے پر وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔بظاہر ان کے انٹرویوز سے یہی لگ رہا ہے کہ اگر انہیں مشیران نے اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا تو اسمبلی ٹوٹنے میں واقعی دیر نہیں لگے گی وگرنہ ’’حاجی صاحب‘‘ کے منصوبے کے مطابق اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی ہے اور عام انتخابات کا انعقاد اکتوبر میں ہی ہوگا۔برسبیل تذکرہ حاجی صاحب کے منصوبے کے مطابق تو مدت ملازمت میں توسیع بھی شامل تھی لیکن انسانی فیصلوں؍خواہشوں سے ہٹ کر بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں،جن پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔مراد یہ ہے کہ حاجی صاحب کامنصوبہ ایک حد تک تو ناکام ہوچکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے جو نقشہ تیار ہوا تھا،وہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟معیشت کی بہتری کا رونا روتے ہوئے رجیم چینج کا جو ڈرامہ رچایا گیا تھا،وہ بھی بری طرح آشکار ہو چکا ہے اور اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی شخصیات ملکی مفاد میں فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا ابھی بھی انہیں ذاتی مفادات عزیز ہیں؟کسی بھی دوسری ملک میں ایسی سنگین صورتحال میں سیاستدان فوری عوام کے پاس جاتے ہیں لیکن یہاں ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنی جو کوشش کررہے ہیں،اس میں اگر کامیاب نہیں ہوتے اور چودھری پرویز الٰہی اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کیلئے اسمبلی توڑنے کی بجائے نون لیگ کے ساتھ مل جاتے ہیں تو یہ عمران خان،ان کی سیاست کیلئے دیگر جھٹکوں کے علاوہ،شدید ترین جھٹکا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button