Editorial

مفاد عامہ کیلئے قانون سازی کی ضرورت

 

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاہے کہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابقہ حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں، پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں، اسمبلی میں موجود ارکان کو اپنے فائدے کی قانون سازی نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، تحقیقات میں مداخلت پر ازخودنوٹس لیا تھا، ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لیکر صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں، آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب قانون میں تبدیلی کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کے دوران متذکرہ ریمارکس دیئے ۔بلاشبہ نظام جمہوریت میں منتخب نمائندوں کا کام قانون سازی ہوتا ہے اور اگر وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قانون سازی کریں تو کیسے ممکن نہیں کہ ملک و قوم تیزی سے ترقی نہ کریں مگر ہماری جمہوریت اور انداز سیاست نے ہمیشہ جمہوریت اور سیاست کو مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید تک محدود رکھا ہے۔ قومی اسمبلی ہو یا پھر صوبائی اسمبلی ملک و قوم یعنی مفاد عامہ کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے ہر نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کو یا تو فی الفور ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے یا پھراُن میں ترامیم لانے کی کوشش کرتی ہے جن سے اُن کے مفاد جڑے ہوتے ہیں۔ اگلی حکومت ایک بار پھر وہی قوانین زیادہ شکنجے کے ساتھ لاتی ہے تو اس کے بعد پھر وہ قوانین ختم یا بے اثر کرنے کے لیے کام شروع ہوجاتا ہے پس ایوانوں میں ایسی قانون سازی اور ایک دوسرے پر تنقید کے سوا کوئی ایسا قانون بنا ہی نہیں جس کو عوام نے اپنے مفاد میں جان کر اپنے منتخب نمائندوں یا پارٹیوں کو زبردست سراہا ہو۔ بس آئین میں ترامیم اور قوانین میں ترامیم اوراگلی حکومت کے دور میں اُن کی واپسی۔ عوامی مسائل پر کوئی بات بھی کرتا ہے تو بظاہر بے اثر معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے آئین میں بعض ایسی ترامیم کی ہیں جن کے خلاف سابق پی ٹی آئی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کررکھا ہے اورمتذکرہ ریمارکس اُسی کیس میں دیئے گئے ہیں ۔ اگرچہ ایوان زیریں سے منظور ہونے والے اس بل کی تعریف کم اوراس پر تنقید زیادہ کی جارہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اِن ترامیم کا فائدہ اُن اشرافیہ کوہوگا جو بلاشبہ عام عوام کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی اُن مسائل سے دوچار ہیں جن سے عام پاکستانی دوچار
ہے۔ زیر بحث ترمیمی بل کے مطابق اب صدر کی بجائے وفاقی حکومت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے احتساب عدالت کے جج کو مقرر کرے گی اور دوسرے ترمیمی احتساب بل 2022 ء کے مطابق اب کسی ملزم پر اُسی عدالتی علاقے میں مقدمہ چلایا جائے گا، جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چیئرمین نیب کو یہ اختیار ہوگا کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے کسی بھی ریفرنس کو وہ ختم کرسکے۔ نیب ہائی کورٹ کی اجازت سے نگرانی کا اختیار رکھتا تھا لیکن اب اس اختیار کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اوراس حوالے سے وفاقی حکومت کی ایجنسیاں بھی اس کی معاونت نہیں کر سکیں گی۔ پی ٹی آئی حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت صرف نیب کے کیسز سے بچنے کے لیے اقتدار میں آئی ہے اور اسی موقف کو بنیاد بناکر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب سے کرپشن کے خلاف قومی ادارہ نیب قائم کیاگیا ہے تب سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف نیب کو ملوث کرکے الزامات عائد کرتی رہی ہیں کہ اُن کے خلاف حکومت نیب کو استعمال کررہی ہے بالخصوص موجودہ اتحادی حکومت کا بارہا موقف رہا ہے کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایوان بالا اور ایوان زیریں کے تمام اراکین صرف قانون سازی کے لیے منتخب ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں وہ صرف گلیاں اور نالیاں پکی کراتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ کام بلدیاتی اداروں کے منتخب ارکان کا ہوتا ہے کہ وہ مقامی سطح کے مسائل مقامی سطح پر ہی فوراً حل کرائیں ۔ ایوانوں میں مفاد عامہ کے لیے قانون سازی ہو تو کیوں ملک میں مثبت تبدیلی اورعوام خوشحال نظر نہ آئیں۔ ایسے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں معاشرتی مسائل ہیں جن پر قانون سازی کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر چند روز قبل ہی پنجاب اسمبلی نے سود کے کاروبار کے خلاف بل پاس کیا ہے اور بلاشبہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے ایسے فورم مفاد عامہ کے لیے ہی کام آنے چاہئیں مگر بدقسمتی یہ فورمز صرف اور صرف سیاست اورجوابی سیاست کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں اس حوالے سے سوچ و بچار کے بعد ایسے قوانین تیار کئے جاسکتے ہیں جن سے یہ بنیادی مسئلہ حل ہو جو پورے ملک کے عوام کا ہے۔ ملاوٹ اور گراں فروشی بھی اتنے ہی بڑے چیلنجز ہیںجن کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور ہر چیز عامۃ الناس کی دسترس سے دور چلی جاتی ہے پھرتھانہ کلچر کی تبدیلی، صحت کی سہولتوں کی گھر کی دہلیز پر فراہمی، تعلیم اور امن و امان، معاشرے میں بے چینی اور عدم استحکام، معاشی اور صنعتوںکو درپیش مسائل، بے گھروں کو گھروں کی فراہمی اور ایسے ان گنت مسائل ہیں جن پر اگر نیب ترامیم سے پہلے قانون سازی ہوتی تو یقیناً معاشرے کو براہ راست فائدہ پہنچتا اور ان ایوانوں اور منتخب نمائندوں کی احترام میں بھی اضافہ ہوتا، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوںکو ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی بجائے مفاد عامہ یعنی ملک قوم کے مفاد میں ترجیح دینی چاہیے اور درحقیقت یہی منتخب نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کا کام ہے جو ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرکے ایوانوں میں پہنچتی ہیں اور پھر اپنے مفادات میں قانون سازی کرکے اپنے معاملات کو محفوظ بناتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button