ColumnKashif Bashir Khan

عوامى رائے کا احترام ضروری ہے! ۔۔ کاشف بشیر خان

عوامی رائے کا احترام ضروری ہے!

کاشف بشیر خان

آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور من حیث القوم ہمارا مقام کیا ہے؟اس سوال کی گہرائی میں جانے کی جتنی ضرورت آج ہے ماضی میں کبھی بھی نہیں تھی۔ آج ریاست پاکستان اس دوراہے پر کھڑی ہے اور اس کی سالمیت اور آزادی پر بڑے بڑے سوالیہ نشانات لگا دیئے ہیں۔پاکستان میں مختلف ادوار میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور مارشل لاء بھی لگتے رہے لیکن جتنی ریاست پاکستان کی حکومت آج کمزور ہے کبھی بھی نہیں تھی۔1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی پاکستان اتنا کمزور نہیں ہوا تھا جتنا آج نظر آ رہا ہے۔پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کسی بھی سیاست دان و حکمران نے سنجیدگی سے آج تک نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش ضرور کی لیکن انہیں سامراج اور استعمار نے جلد ہی راستے کے پتھر کی طرح صاف کر کے اس ملک پر پھر اپنے پنجے گاڑ دیئے۔دراصل پاکستان میں قانون و آئین کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہی تمام برائیوں اور خرابیوں کی جڑ ہے۔ بھٹو کے عبرتناک انجام کے بعد اول تو ایسے سیاست دان میدان سیاست میں لائے گئے جن کا مطمع نظر عوام و پاکستان کی فلاح و ترقی ہرگز نہیں تھادوسرے ان کا تعلق ایسے خاندانوں سے تھا جن کے مالی مفادات تھے گویاان گروہوں کو اقتدار میں لا کر یا مسند اقتدار پر بٹھا کر بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھا دیا گیا۔جس ریاست میں اراکین اسمبلی کی بھیڑ بکریوں کی طرح خریدوفروخت کی جاتی ہو اور انہیں چھانگا مانگا اور سوات میں رکھ کر عیاشی کے تمام لوازمات فراہم کئے جاتے ہوں وہاں کے نظام کو جمہوری اور انصاف پر مبنی کہنا انتہائی لغو اور جھوٹ بات لگتی ہے۔
جس ملک میں اراکین اسمبلی پر ضمیراور وفاداری تبدیل کرنے کیلئے کروڑوں روپے بطور رشوت حاصل کرنے کے ناقابل تردید الزامات لگتے ہوں وہاں کون سی جمہوریت؟آج انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے 75 سال بعد ہم وہاں بھی نہیں کھڑے جہاں سے شروع کیا تھا بلکہ ہر شعبہ میں پاتال میں گرے نظر آتے ہیں۔اداروں میں اپنے بندے گھسانے کا جو سلسلہ 1985 سے شروع ہوا تھا وہ طاقتور حکمران گروہوں کیلئے آج ایسا طاقتور اور تن آور درخت بن چکا ہے جس کی چھاؤں میں ملکی دولت لوٹنے والے نہ صرف خود آرام کر رہے ہیں بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی عیاشی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔قریباً 40 سال قبل ملکی مختلف اداروں میں اپنے پیارے کھپانے کے عمل نے جہاں اداروں کو سیاسی کیا وہاں عوام میں بہت بڑی تفریق ڈال دی۔ یہ عمل عوام کے بنیادی حقوق پر بہت بڑا ڈاکہ تھا جس نے عوام کو نہ صرف ہر شعبہ میں انصاف سے محروم کیا بلکہ ان کی محرومیوں اور بے بسیوں میں بے انتہا اضافہ کر کے ان میں گھٹن پیدا کی۔2022 میں پاکستان میں تبدیلی حکومت کے بعد آج ملک کی کشتی بیچ بھنور میں ڈگمگاتی دکھائی دے رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت تبدیل ہوتے ہی پاکستان میں بیرونی مداخلت کا شوروغوغا مچا اور عمران خان کے اس بیانئے کو عوام میں جو پزیرائی ملی اس کی مثال ملکی سیاست میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔آج پاکستان کے عوام کی اکثریت اس بیرونی مداخلت کے بیانئے کو خرید چکی ہے اور اب اس بیانئے سے عوام کو
ہٹانا ناممکن لگتا ہے۔ زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو عوام میں غم وغصہ کی ایک بڑی وجہ ماضی میں ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والے سیاستدانوں کو مسند اقتدار پر بٹھانا بھی ہے۔بارہا لکھ چکا ہوں کہ ماضی میں جمہور کے دیئے ہوئے اکثریتی مینڈیٹ کو اقلیت میں تبدیل کرنے یا دیوار سے لگانے کے سنگین نتائج کا سامنا ہو چکاہے ۔مشرقی پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ ہو یا پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو کے مینڈیٹ کا بارہا چوری کرنے کی وجہ سے عوام کا انتخابات سے اعتماد اٹھ گیا تھا لیکن 2013 کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف کی عوامی تحریک نے عوام کو پھر سے انتخابات کی طرف راغب کیا اور جمہوریت کے تناظر میں سب سے اچھی اور خوش آئند صورتحال جو سامنے آئی وہ پاکستان کے ان طبقات کا انتخابی عمل میں شرکت تھی جو کبھی بھی انتخابات کے عمل میں شامل نہیں ہوتے تھے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات کے ساتھ ساتھ تمام ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کی بلند شرح اس بات کا ثبوت ہے۔ پنجاب میں جولائی2022 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے انہوں نے نہ صرف پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کو ہمیشہ چرانے والوں کو تمام تر حکومتی جبر اور ہتھکنڈوں کے باوجود شکست فاش کی بلکہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے سالہا سال سے عوام کو مینڈیٹ چرانے والوں کے ہوش گم کر دیئے اور انہوں نے پاکستان کی اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی حمایت یافتہ جماعت تحریک انصاف اور عمران خان کو دیوار سے لگانے کی ہر کوشش ،جسے وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ کا نام دیتے ہیں، کی شدید کوششیں شروع کر دی ہیں۔اس یلغار میں الیکشن کمیشن، ایف آئی اے، ادارے اور میڈیا کا بہت بڑا حصہ بھی شامل ہے۔
حقیقی احتساب سے کسی بھی ذی شعور اور ہوش مند پاکستانی کو اختلاف نہیں ہو سکتا بلکہ عوام کی غالب اکثریت چاہتی ہے پاکستان میں حقیقی احتساب ہو اور قانون کی حکمرانی ہو لیکن جب ماضی میں ملکی عدالتوں سے سزا یافتہ اور مختلف کرپشن مقدمات بھگتنے والی اقتدار میں بیٹھ جائیں اور اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات لگا رہے ہوں تو ذرا سوچئے کہ ان کی بات کون سنے گا اور ان کی اخلاقی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہو گی؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اقدامات بھی اس وقت جانبدار دکھائی دے رہے ہیں اور گزشتہ چند مہینوں میں ان کے تحریک انصاف کے خلاف فیصلوں کو ملک کی عدالتوں نے رد کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اس عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں ویسے بھی ملک کی دو بڑی صوبائی اسمبلیوں سے ان کے جانبدارانہ کنڈکٹ کی وجہ سے ان سے عہدہ چھوڑنے کی قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک یا ڈیڑھ سال قبل افواج پاکستان کے خلاف شدید ہرزہ سرائی سے بے دل ہو کر میں نے جب راولپنڈی میں ایک ذمہ دار سے فون پر گلہ کیا تھا کہ دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ اپنی فوج اور ان کے افسران کے خلاف ہرزہ سرائی کی جائے تو ان کا مجھے جواب تھا کہ کاشف صاحب ہم نے چپ رہنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آج جب شہباز گل کو وفاقی حکومت نے بغاوت کے الزامات کے تحت پکڑا ہے تو عوام انتظار کر رہے ہیں کہ ماضی قریب میں بھی پاک فوج اور اداروں کے خلاف زبانیں نکال کر نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کب کارروائیاں ہوتی ہیں۔باقی رہا شہباز گل، ہر وحشیانہ تشدد تو اس کی کسی بھی مہذب معاشرے اور ریاست میں نہ ہی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس جابرانہ تشدد نے جہاں وفاقی حکومت کو دنیا بھر میں ایکسپوز کیا ہے وہاں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔بات شروع ہوئی تھی ملک کی کشیدہ ترین سیاسی صورتحال کی۔
امریکی اخبار کی صحافی پامیلا کانسٹیبے کی 18 اگست کو واشنگٹن پوسٹ میںچھپنے والی سٹوری پاکستان میں انسانی حقوق اور میڈیا پر بدترین کریک ڈاؤن کی پوری داستان بیان کر رہی ہے۔ جو کچھ پاکستان میں نہیں چھپ سکتاوہ کامیلا نے اپنے مضمون میں لکھا ہے اور موجودہ حکومت کی ناکامیوں اور غیر مقبولیت کو بیان کیا ہے۔ پامیلا نے پاکستان میں عمران خان کے بے انتہا مقبولیت کے تناظر میں لکھا ہے کہ ادارے اور غیر مقبول وفاقی حکومت گھبرا چکے ہیں اور الیکشن کمیشن اور وفاقی اداروں کے ذریعے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ان کے نوٹس ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا راستہ سیاسی میدان سے باہر روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیا پر پابندی اور صحافیوں پر قدغن کی باتیں اب دنیا بھر میں تشویش سے دیکھی جا رہی ہیں۔پاکستان کے موجودہ بدترین حالات کا اگر فوری تدارک نہ کیا گیا تو ملک شدید خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستی جبر اور تشدد کبھی بھی عوام کو ان کے مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکے۔پاکستان کی موجودہ بدترین صورتحال کا حل صرف اور صرف نئے لیکن شفاف انتخابات میں ہے۔نظام کے بدترین انحطاط کی وجہ سے عوام شدید پریشانی اور گھٹن کا شکار ہیں۔تاریخ گواہ ہےکہ کسی بھی ریاست کے باشندوں میں گھٹن پریشانی اور بے بسی ہمیشہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔
مقتدر حلقوں اور اعلیٰ عدلیہ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا اور ووٹ یعنی عوام کی حقیقی رائے کو فوری یقینی بنا کر پاکستان کو خطرناک خانہ جنگی سے بچانا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button