Columnمحمد مبشر انوار

کشیدگی! ۔۔ محمد مبشر انوار

کشیدگی!

محمد مبشر انوار

قریباً ستر برسوں سے پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی کا تماشہ پوری آب و تاب سے ہنوز جاری ہے اور اس کے رکنے کے آثار کم از کم مستقبل قریب میں نظر نہیں آتے۔ جمہوری طریقے سے حاصل کئے گئے ملک میں جمہور اور جمہوریت ستر برسوں سے نظر انداز ہیں اور ملکی تقدیر کے فیصلے بند کمروں میں چند افراد کی ذاتی پسند و ناپسند و اناو ضد کے مطابق ہوتے نظر آتے ہیں ماسوائے ایک انتخاب کے،جس کے نتائج کو تسلیم نہ کرکے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا گیا لیکن ہوس اقتدار والوں کی آنکھیں ابھی بھی بند ہیں ۔سیاسی اکابرین جمہوریت کے نام پر اقتدار کی بندر بانٹ کرتے ہیں جبکہ آمر،آمریت کے دور میں سیاسی اکابرین کی حمایت حاصل کرتے نظر آتے ہیں اور ہر دو صورتوں کے پیچھے مقصد فقط دوام اقتدار ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ہم سیاسی کھیل کو مروجہ اصولوں کے مطابق کھیلنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ جمہوریت کا بنیادی مقصد و فلسفہ ہی یہی ہے کہ جس کی اکثریت ہے،وہ اقتدار سنبھال کر امور مملکت ،قومی مفادات کے مطابق سرانجام دے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ جمہوریت کے اس بنیادی فلسفے و روح کے خلاف اولاً تو انتخابات کا انعقاد ہی شفاف نہیں ہوتا اور بیشتر نمائندگان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح اپنا انتخاب جیتا جائے،اس کیلئے خواہ کوئی بھی طریقہ استعمال کرنا پڑے۔ جعلی ووٹوں کا شمار ہو یا طاقتور حلقوں کے ساتھ ذاتی مراسم،انتخابی عملے کی غیر قانونی حمایت ہو یا ہنگاموں،لڑائیوں اور تشدد کی آڑ میں پولنگ سٹیشنزپر ابتری کی صورتحال پیدا کرکے اپنے ووٹوں کو بڑھانا ہو،انتخابی نتائج میں ردوبدل ہو یا بیلٹ بکس تبدیل کرنا ہو،ہر صورت جیتنا لازمی امر تصور ہوتا ہے۔سپورٹس مین سپرٹ نام کی کوئی چیز اس کھیل میں قطعی دکھائی نہیں دیتی جبکہ مسلمہ اصول ہے کہ ناکامی، کامیابی کی پہلی سیڑھی شمار ہوتی ہے ا اور انسان کو جہد مسلسل کی ترغیب دیتی ہے لیکن ہمارے خودساختہ سیاستدان کہ جن کی اکثریت سیاست،سیاسی فلسفے سے نابلد ہے اور فقط اس لیے سیاست کے میدان میں ہیں کہ پاکستان میں سیاستدان ایک مراعات یافتہ طبقہ تصور ہوتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ہوں، ان کا اثرورسوخ اور اہمیت کم نہیں ہوتی اور سرکار دربار تک ان کی رسائی بہرطور نہ صرف موجود ہوتی ہے بلکہ واضح طور پر نظر آتی ہے،ریاستی مشینری ان کی تابع دکھائی دیتی ہے اور یہ نمائندگان عوام کے خادم کم اور حاکم زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ مہذب اور جمہوری معاشروں میں عوامی نمائندگان کی حیثیت خداموں کی سی ہوتی ہے اور وہ اپنے ہر عمل کیلئے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔
عوامی نمائندے درحقیقت کسی بھی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ،معاشرے کے خدوخال،رہن سہن،قانون کی بالا دستی جیسے عناصر کی شناخت ہی دراصل ان نمائندوں کے توسط سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ مہذب و جمہوری ریاستوں میں خواہ کلنٹن ہوں، ٹرمپ ہوں یا بورس جانسن یا ان سے پہلے کی قیادتیں ہوں،اپنے ہر غیرقانونی عمل کیلئے قانون کو جوابدہ ہیں۔ وہاں کسی کی حیثیت اس کے غیرقانونی عمل پر پردہ نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی کسی بھی طور قانون سے فرار ممکن ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے حقائق اس کے برعکس ہیں اور یہاں عوامی نمائندگان کو ملکی وسائل لوٹنے کی کھلی چھٹی ہے،قوانین سے کھلواڑ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے، عدالت میں جرم ثابت ہونے کے باوجودچکمہ دینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ مک مکااس ملک کا سب سے کامیاب ترین فارمولا بن چکا ہے۔ جبکہ عام شہریوں کی زندگی اس مک مکا فارمولے نے اجیرن کر رکھی ہے،نظریاتی سیاست کی عدم موجودگی،حلقہ کی سیاست،سپورٹس مین سپرٹ کی عدم موجودگی نے اشرافیہ کیلئے اس ملک کو جنت بنا رکھا ہے اور عام شہریوں کیلئے یہ ملک جہنم سے کم نہیں ہے۔جنرل مشرف کے دور میں غالباً ایڈمرل منصورالحق کی کرپشن کو پلی بارگین کے ذریعے قانونی تحفظ دینے کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد ایڈمرل منصورالحق امریکی قید سے رہا ہوکر پاکستان میں پرتعیش مقید زندگی گذارتے رہے جبکہ سیاسی کرپٹ عناصر نے دیگر قانونی سقم مد نظر رکھتے ہوئے پلی بارگین کے بغیر ہی بیرون ملک پر تعیش زندگی گذارنا شروع کردی ہے۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ سیاستدانوں میں بھی چند مخصوص افراد کہہ سکتے ہیں جو اس سہولت سے فیض یاب ہو رہے ہیں جبکہ اس وقت زنداں میں ایک سیاسی کردار ایسا بھی موجود ہے،جس کی شناخت ذاتی ہی ہے،اس کی پشت خالی ہے جس کے باعث پاکستانی ؍اسلام آباد پولیس اس پر بہیمانہ تشدد کر رہی ہے۔ اس کے بیان کی حمایت یقینی طور پر کوئی بھی نہیں کر سکتا اور نہ کرنا چاہیے لیکن اصولاً اور قانونی طور پر قانون سب کیلئے برابر ہوتاہے،ایسا نہیں کہ ایک کمزور شخص پر آپ انسانیت سوز تشدد کریں لیکن اس سے زیادہ تباہ کن الفاظ کہنے والوں کو آپ نظر انداز کردیں۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جو الفاظ شہباز گل نے کہے ہیں کیا اس سے واقعتاً ادارے میں اس قسم کی تقسیم ممکن ہے؟اس ادارے کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ ایسے الفاظ خواہ کوئی بھی کہے،اس ادارے سے منسلک افراد ایسی کسی بات کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے اور نہ ہی اس ادارے کی ساخت ایسی ہے کہ ایسی کسی بات سے اس میں تقسیم یا دراڑ پیدا ہو سکے۔ اس کے باوجود بھی کسی پاکستانی کیلئے قطعی مناسب نہیں کہ وہ ایسے الفاظ ادارے کیلئے ادا کرے یا کسی تقسیم کیلئے اکسائے،لیکن اس کی سزا جرم کے مطابق ہونی چاہیے اور بلا امتیاز ہونی چاہیے۔ اس صورتحال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے کہ وفاقی حکومت صرف چند کلومیٹر پر حاکم ہے اور اس کے بعد صوبوں میں دوسری سیاسی جماعت حکمران ہے، قانونی طور پر جس طرح جوڈیشل ریمانڈ کے بعد ازسرنو جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے،وہ از خود ایک مذاق تو ہے ہی پس پردہ دباؤ کو بھی آشکار کر رہا ہے۔ اس حقیقت کی تمام تر تفصیلات سامنے آ چکی ہیں اور کئی ایک قانونی ماہرین اس پر اپنی رائے دے چکے ہیں کہ اس طرح کا معاملہ کم ازکم پہلے نہیں ہوا یعنی ایسی نظیر پہلے موجود نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت سے قریب تر دکھائی دے رہا ہے کہ پس پردہ قوت درحقیقت کیا چاہ رہی ہے اور کیوں اس اسیر کو جسمانی اذیت دینے کے درپے ہے۔ اس پس منظر میں اسیر سے حاصل کیا جانے والا کوئی بھی بیان،قانون کے نظر میں قابل قبول ہو سکتا ہے؟انتہائی معذرت کے ساتھ ،اگرجوڈیشل کے بعد دوبارہ جسمانی ریمانڈدیا جا سکتا ہے تو اس امر کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ایسے کسی بیان کے حصول پر اپنے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ تاہم اس ساری کھینچا تانی میں، صوبائی حکومت اس معاملے پر ،قانون کے اندر رہتے ہوئے ہی مزاحمت تو کر رہی ہے لیکن اس کی ایک حد ہے کہ عدلیہ کے احکامات اور پس پردہ مقاصد کے سامنے صوبائی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے ہیں اور اسیر کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔
یہ حقائق بد قسمتی سے اس امر کے غماز ہیں کہ ہماری سیاست یا مقتدرہ ابھی تک انتقامی جذبے سے باہر نہیں نکلی اور نجانے ہمیں باشعور ہونے ،جمہوریت کی اصل روح اور نظام کو سمجھنے میں کتنا عرصہ درکار ہے لیکن اس رسہ کشی میں جو حالات بن رہے ہیں وہ کسی طور بھی قومی سوچ کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہے اور واضح نظر آ رہا ہے کہ موجودہ حالات ذاتی پسند وناپسند یا انا کے درمیان وفاق ،صوبوں اور طاقتور حلقوں کے درمیان مخاصمت کو فروغ دے رہے ہیں۔ کشیدگی اس قدر بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ خدانخواستہ وفاقی اکائیاں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتی نظر آ رہی ہیں ،ماضی کی غلطیاں ہی دہرائی جا رہی ہیں کہ ایک وفاقی سیاسی جماعت کو علاقائی جماعت بنا کر ،دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے جگہ بنائی گئی اور ان سیاسی جماعتوں میں سے ایک اور سیاسی جماعت قومی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر آئی ہے اور اسے بھی توڑنے کی بھرپور کوشش،کس کے ایماء پر اور کیوں ہو رہی ہے،یہ کوئی اتنی بھی خفیہ بات نہیں کہ کشیدگی کی سب سے بنیادی وجہ ہی انا اور ضد نظر آ رہی ہے۔اس انا اور ضد میں کہیں یہ کشیدگی ملکی سالمیت کیلئے نقصان دہ نہ ہوجائے، اس کا تمام ذمہ داروں خیال رکھنا لازم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button