ColumnRoshan Lal

ریاستی بقا اور حکومتی ساکھ .. روشن لعل

روشن لعل

ملک کی تقسیم کے متعلق عمران خان کے بیان کی جس طرح مذمت کی جارہی ہے، اس میںجذبہ حب الوطنی کی نسبت سیاسی مخالفت کا عنصر زیادہ نمایاں ہے۔ عمران خان کے مذکورہ بیان میں بھی پاکستان کی بقا کے متعلق تشویش کی بجائے خود کو سیاسی طور پر کارآمد ثابت کرنے کی کوشش زیادہ عیاں نظر آتی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے متعلق مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کوئی نئی بات نہیں لیکن عمران خان جیسا شخص جس نے قبل ازیں ملک کی تقسیم کاخدشہ کبھی ظاہر نہ کیا ، وہ اگراپنا اقتدار ختم ہونے پر اچانک ملک کی توڑ پھوڑ کے متعلق باتیں کرنا شروع کردے تو ریاست کے لیے اس کی نیک نیتی پر سوال اٹھانے اور اس کے بیان کی مذمت کو ناقابل جواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان کے بیان کی مذمت جائز ہونے کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ریاست کی پائیداری کے متعلق قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی باتیں ہونا شروع ہو گئی تھیں۔واضح رہے کہ صرف اس طرح کی باتیں ہی شروع نہیں ہوئی تھیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان باتوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے سازشوں کا آغاز بھی ہوگیا تھا۔

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش برآمد ہونے کے بعدجو نیا پاکستان سامنے آیا ، اس کے متعلق بھی یہ باتیں رک نہیں سکی تھیں۔ قیام پاکستان اور پھر بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان کے وجود کے متعلق جو باتیں ہوتی رہیں ان میں زیادہ تر قومی و لسانی تقسیم اور صوبائی حقوق جیسے مسائل زیر بحث آتے رہے لیکن موجودہ دورمیں مذکورہ موضوعات کے ساتھ معاشی عدم استحکام کا موضوع بھی شامل ہو چکا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل پاکستان کے متعلق جو باتیںکی جارہی ہیں ان میں سب سے زیادہ ذکر معاشی عدم استحکام کا ہورہا ہے۔ معاشی عدم استحکام کے حوالے سے جہاںبعض معیشت دانوں نے ملک کے سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تو وہاں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے کہا کہ اس کے دیوالیہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔
ریاست کے دیوالیہ ہونے سے متعلق خفیف اختلاف رائے کے باوجود سب ہی متفق ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا گیا ہوتا تو ملک بہت پہلے یقینی طور پر دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہوتا۔آئی ایم ایف کے حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ کسی قبر میں سونے سے بچنے کے لیے اگر آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے تو یہ ادارہ جو کچھ مہیا کرتا ہے وہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا
ایسا بستر ہوتا ہے جس پر سکون کی نیند تو کیا سرے سے سونا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس پرانی تاریخ کو عمران خان نے انتہائی نرالے انداز میں آگے بڑھایااور اس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی تاریخ عمران خان نے رقم کی جو پہلے یہ بیان دے چکا تھا کہ اس ادارے سے قرض لینے کی بجائے وہ خود کشی کو ترجیح دے گا۔عمران خان نے نہ خود کشی کرنی تھی اور نہ کی مگر آئی ایم ایف کے پاس جانے میں اس نے اتنی دیر کردی کہ ملک کی بیمار معیشت جو پہلے کم از کم اپنے طور پر سانس لے رہی تھی وہ وینٹی لیٹر پر منتقل ہو گئی۔
ہمارا ملک 1950 کے بعد سے اب تک 22 مرتبہ آئی ایم کے پاس جا چکا ہے۔ ملک کو بائیسویں مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس لے جانے والے عمران خان کاطرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے اس ادارے کی کڑی ترین شرائط مان کر قرض حاصل کیا۔ یہ بات خاص طور پر مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ موجود حکومت جس معاہدے میں تسلیم کی گئی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ملک میں جان لیوا مہنگائی کر رہی ہے وہ معاہدہ عمران خان کی حکومت نے کیا تھا۔ یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے اپنی حکومت کے یقینی خاتمے سے کچھ ماہ پہلے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں طے شدہ اضافہ کرنا بند کردیا تھا۔ وقتی طور پر دی گئی اس سہولت کے ریاست اور عوام پر عمران خان کے آئی ایم ایف پاس جانے میں تاخیر کرنے سے بھی زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ واضح رہے کہ عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے نمائندوں کو پاکستان کا نمائندہ بناکر ان کے ذریعے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط تسلیم کر نے کا ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت مہنگائی کو ساتویں آسمان تک پہنچانے کے علاوہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں تھا۔
مہنگائی کے ساتویں آسمان پر جانے سے عوام پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ملک کی ہر گلی ، محلے، گائوں شہر اور قصبے میں نظر آرہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی طرف سے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کرنے سے خراب ملکی صورتحال خراب تر ہوگئی مگر جس صورتحال کی وجہ سے عمران خان کو حکومت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا اس کے پیدا ہونے میں عمران خان کابراہ راست کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ پاکستان کا جو حکمران بھی آئی ایم ایف کے پاس گیا ، اسے اگر یہ کام حکومت سنبھالتے ہی کرنا پڑا تو صاف ظاہر ہے انہیں ان مسائل کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا جن مسائل کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع ناگزیر ہو چکا تھا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں آئی ایم ایف سے قرض لینا اور عوام کا مہنگائی کی چکی میں پسنا لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ حکمران چاہے جو بھی ہو اس کے دور حکومت میں اگر عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں تو اس حکمران کے لیے نیک نامی کا سامان پیدا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کی پراپیگنڈہ مشینری کے لاثانی ہونے کے باوجود مہنگائی کے حوالے سے عمران خان کے لیے کسی قسم کی نیک نامی کا سامان پیدا نہیں ہو سکا تھا۔ اسی وجہ سے عمران خان کو اپنی شہرت برقرار رکھنے کے لیے بیرونی سازشوں کی کہانیوں کا سہارا لینا پڑا کیونکہ مہنگائی کنٹرو ل کرنے اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کی گئی جس مہنگائی کی وجہ سے پہلے عمران خان کی ساکھ خراب ہوئی اب اسی مہنگائی کی وجہ سے موجودہ حکومت میں شامل ہر پارٹی اور لیڈر کی ساکھ دائو پر لگی ہوئی ہے۔ ملک کی بقا کی خاطر حکمران جو مشکل ترین فیصلے کرنے پر مجبور ہیں ان فیصلوں کے بعد ان کی ساکھ کا خراب ہونا طے ہے ۔ اب اس اتحادی حکومت کے پاس عوام میں اپنی ساکھ نسبتاً بہتر بنانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مشکل فیصلے تو وہ کرچکے اب مشکل ترین فیصلے بھی کر گزریں اور عوام کو مہنگائی کی چکی میں مزید پیسنے کی بجائے ملکی بقا کی خاطر ان طبقات پر قربانیاں واجب کریں جو عوام کے مسائل اور مصائب سے لاتعلق رہتے ہوئے ہر حال میں ناحق سہولتوں اورآسائشوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button