ColumnNasir Sherazi

ہزاروں کا لشکر .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

میدان سیاست کے شاہسواروں کو ایک دوسرے پر صدقے واری ہوتے اور پیار محبت کی پینگیں بڑھاتے متعدد بار دیکھا پھر یہی دوست خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل نظر آئے، مخالفت بڑھی تو اچھے زمانوں کو بھلاکر دشمنی پر اُتر آئے، ایک دوسرے کو کس کس نام سے یاد نہ کیا، پھر پلٹا کھایا تو مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے شیر و شکر ہونے میں دیر نہ کی۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد عمرانخان عوام رابطہ مہم پر نکلے تو لوگ اکٹھا کرنے میں کسی حد تک کامیاب نظر آئے۔ ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے نئی سیاسی جماعت بنانے والے مصطفی کمال سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے جواب دیا۔ لوگ تو یزید کے ساتھ بھی تھے۔

انہوں نے براہ راست تو کسی کو یزید نہیں کہا لیکن وہ کہہ گئے کہ جس کے ساتھ لوگوں کی زیادہ تعداد ہو ضروری نہیں وہ حق پر بھی ہو۔ عمران خان آزادی مارچ اور دھرنا دینے کا پروگرام لے کر نکلے توحکومت نے ان کا راستہ روکا، کنٹینر، لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں سبھی کچھ نظر آیا۔ عمران خان اپنا مقصد حاصل نہ کرسکے۔ انہوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف پریس کانفرنس کی، وہ کہنے والے تھے کہ یزیدوں نے یہ ظلم ڈھائے لیکن انہوں نے اپنے منہ میں آیا ہوا فقرہ روکا اور کہا کہ یزید کی اولادوں نے جو کچھ کیا وہ بہت برا تھا، انہیں اس کا حساب دینا پڑے گا، دو روز قبل دیر بالا میں ایک جلسے سےخطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اس دور کے یزید کے ڈر سے باہر نہ نکلتی تو تاریخ اور آئندہ نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گی۔ عمران خان نے اِس مرتبہ بھی براہ راست کسی کو یزید نہیں کہا لیکن سب جانتے ہیں وہ یزید کہہ کر کس کو مخاطب کررہے ہیں،
اِس سے قبل وہ نیوٹرل ہوجانے والوں کو جانور کہہ چکے ہیں، جس پر ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، یزید بدعہد شخص ہونے کے ساتھ شقی القلب تھا، یزید تاریخ کا مکروہ ترین کردار ہے، وہ کردار تو تھا ہی اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے، جس کا وہ خود ذمہ دار ہے، تاقیامت اِس پر نفرین کی جاتی رہے گی۔ وہ کسی شوریٰ کا انتخاب نہیں بلکہ نامزدگی کے بعد اقتدار میں آیا یوں ملوکیت کی ابتدا ہوئی، اس کے حواریوں نے اس کی بیعت کی جبکہ نواسہ رسولﷺ، جگر گوشۂ بتول سلام اللہ علیہ نے اُس کی بیعت سے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھ جیسا تم جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا، یہ انکار بیعت دراصل خاندانِ ریاستﷺ کی طرف سے یزید پر عدم اعتماد تھا، یزید خوب جانتا تھا کہ اگر اِسے اِس پاکیزہ گھرانے سے اعتماد کا ووٹ نہ ملا تو زمانے بھر کی بیعت اور اُس کی خلافت کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔
یزید برائیوں کا مجموعہ اور بدقماش شخص تھا اُس کا شمار تاریخ کے سفاک ترین افراد میں ہوتا ہے وہ شراب و شباب، رقص و موسیقی کا دلدادہ، خود نمائی کا شوقین اور خود پسند شخص تھا، اسلامی شعائر سے اُس کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، وہ تمام دن سو کر گذارتا اور سرشام خرمستیوں میں مصروف ہوجاتا، اس کے گھر اس جیسے لوگوں کا مجمع تھا، وہ آیات قرآنی کا تمسخر اڑاتا اور اُن کی من چاہی تفسیر و مطلب بیان کرتا، اُس نے رشتوں کے تقدس کو چکنا چور کرتے ہوئے تمام عورتیں اور تمام رشتے اپنے اوپر حلال قرار دے دیئے، وہ ضدی اور ہٹ دھرم شخص تھا، کسی بھی معاملے میں کسی کی نہ سنتا بلکہ جو جی میں آجاتی وہ کرگذرتا، وہ ریا کار و کینہ پور تھا، اُس کی عبادت فقط دکھاوا تھا، اُس نے اُن کی تعلیمات پر کبھی عمل نہ کیا، اُس نے حکم دیا کہ بزور شمشیر نواسۂ رسولﷺ سے بیعت لی جائے، انکار کریں تو تہہ تیغ کردیا جائے،  امام حسینؑ کے انکارِ بیعت کے بعد آپ ؑ کو شہیدکرنے کی سازش تیار کی گئی، ایام حج میں حاجیوں کے بھیس میں قاتل خانہ کعبہ میں متعین کردیئے گئے، منصوبہ تھا کہ دوران طواف وہ آپؑ کو شہید کردیں گے جس کے بعد اعلان ہوگا کہ نامعلوم افراد نے یہ فعل انجام دیا،
ہجوم کے باعث قاتل فرار ہوگئے۔ سازش کی خبر ہوئی تو امام حسینؑ نے خانہ کعبہ کو خون ریزی سے بچانے کے لیے حج کا ارادہ ترک کیا، عمرہ ادا کیا، اپنے نانا سردار الانبیاﷺ کے روضۂ مبارک پر حاضری دی، پھر اپنی والدہ سیدہ کونین کی قبر پر پہنچے، بعد از سلام رخصت ہوئے اورکربلا کا قصد کیا، یزید کو خبر ملی تو اُس نے سپاہ کا لشکرروانہ کیا، اُسے حکم دیا کہ امام حسینؑ جہاں ملیں، انہیں روک کر بیعت حاصل کی جائے، انکار کریں تو کوئی رعایت نہ برتی جائے، کربلا کے لق و دق صحرا میں پہنچے تو یزید کی طرف سے آئے ہوئے لشکر نے راستہ روک دیا اور یزید کا حکم پہنچایا، نواسہ ٔ رسولؐکی طرف سے انکار ہوا تو کہاگیا کہ اب آگے نہیں جاسکے، اب فیصلہ جنگ سے ہوگا، امام حسینؑ نے دریائے فرات کے کنارے خیمے لگوائے تو پھر حکم یزید کے تحت اُن کے خیمے اُکھاڑ دیئے گئے،دریا سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر خیمے دوبارہ نصب کیے گئے،
پھر یزید کی طرف سے پے درپئے لشکر پہنچنا شروع ہوئے، روزِ عاشور تک قریباً ستر ہزار کے لشکر پہنچ چکےتھے، جب بھی کوئی لشکر پہنچتا تو سیدانیاں امام حسینؑ سے پوچھتیں، کیا ہماری حمایت میں کوئی لشکر آیا ہے، جس پر امام حسینؑ خاموشی
توڑتے ہوئے مختصر جواب دیتے، نہیں! لشکر یزید و ابن ِزیاد کی طرف سے بیعت کے لیے دبائو بڑھتا گیا، مگر امام حسینؑ کے پایہ استقامت میں کوئی لعزش نہ آئی، لشکر یزید جنگ کے لیے بے تاب تھا، امام حسینؑ نے کہنے کو تو شب عاشور ایک رات کی مہلت مانگی ، درحقیقت انہوںنے ہجوم کو سوچنے اور سمجھنے کا ایک موقعہ دیا مگر کوئی جہنمی راہ راست اختیار کرنے پر آمادہ نہ ہوا، دس محرم کی صبح نماز فجر ختم نہ ہوئی تھی کہ لشکر یزید نے تیروں کی بارش برسادی جس کے نتیجے میں امام حسینؑ کے تیس اصحاب شہید ہوگئے، کچھ دیر بعد یکے بعد دیگرے اصحاب ِ امام حسینؑ میدان جنگ میں جاتے اور جام شہادت نوش کرتے رہے، وقت عصر تک آپؑ کے تمام اصحاب، عزیز و اقارب، بھائی، بھانجے، بھتیجے جام شہادت نوش کرچکے تھے،
سب سے کم سن شہید آپ کے چھ ماہ کے صاحبزادے علی اصغر تھے جبکہ فقط ایک علیل فرزند امام زین العابدینؓ رہ گئے، آخر میں امام حسینؑ شدید زخمی ہوکر جب گھوڑے کی پشت سے زمین پر گرے تو شمر ملعون آپؑ کا سر مبارک قلم کرنے کے لیے پہنچ گیا، آپؑ نے آخری نماز ادا کرنے کا وقت مانگا، سجدے میں سر رکھا تو پھر اُٹھانے کی مہلت نہ ملی، امام حسینؑ کا کٹا ہوا سر نوکِ نیزہ پر بلند ہوا، لشکر یزید میں فتح کے نقارے بجے، سپاہِ یزید خیام حسینیؑ کی طرف بڑھیں، انہیں آگ لگادی، مال و اسباب لو لیا، نبیﷺ کی بہو ، بیٹیوں کے سروں سے چادریں تک کھینچ لی گئیں، خواتین اور بچوں کو ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال کر قیدی بنالیاگیا، پھر انہیں پاپیادہ کوفہ و شام کے بازاروں میں پھرایاگیا، دربار یزید میں پیش کرنے کے بعد سب کو زندان میں ڈال دیاگیا، مدینہ وحشی درندوں کے سپردہوگیا، چھ ماہ تک ظلم و ستم، لوٹ مار جاری رہی، وہ مظالم ڈھائے گئے جنہیں دیکھ کر تاریخ کا سرشرم سے آج تک جھکا ہوا ہے۔
یزید ظلم، جبرواستبداد کا استعارہ، کربلا مظلومیت، حق پر ڈٹے رہنے اور صبرو استقامت کا نشان ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی جاری جدوجہد کو معرکہ حق و باطل قرار دے رہے ہیں، وہ اپنے ساتھیوں کو راہ حق میں بلاخوف و خطر نکلنے کا کہہ رہے ہیں، لوگ ان کی باتیں سن رہے ہیں، انہوںنے اپنا آزادی مارچ و دھرنا کچھ ایام کے لیے ملتوی کردیا ہے، وہ اب بھرپور تیاری کے بعد آنے کا عندیہ دے چکے ہیں، انہوںنے اپنے مارچ ، اپنے دھرنے کو اب جہاد کا نام دے دیا ہے، وہ اب اپنے آپ کو مظلوم ترین لیڈر کے طور پر پیش کررہے ہیں لیکن اپنی چار سالہ کارکردگی پر بات نہیں کرتے، کچھ عجیب نہیں وہ کسی روز اچانک اپنے تصور کے مطابق تراشی گئی اپنی ضرورتوں کے مطابق سجائی گئی کربلا میں پہنچنے کی تاریخ کا اعلان کردیں، ان کے ساتھ بہتر جانثار نہ ہوں گے، ہزاروں کا لشکر ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button