ColumnZia Tanoliتازہ ترینخبریں

آئی ایس آئی پبلک آفس ہولڈرز کیلئے نوٹیفکیشن کیوں ناگزیر ہوا؟

ضیا تنولی
آئی ایس آئی پبلک آفس ہولڈرز کیلئے نوٹیفکیشن کیوں ناگزیر ہوا ؟
ملک میں بجلی کا بحران نئی نویلی حکومت کے گلے پڑا ہوا ہے، بالکل ایسا لگ رہا ہے جیسے دلہن کے ہاتھوں سے مہندی کا رنگ پھیکا بھی نہ ہوا اور ساس نے گھر کے کام کاج پر لگادیا ۔ تبدیلی سرکار سے جان چھڑانے کے لیے آنے والوں کے گلے میں بجلی کا بحران طوق بن کر پڑا ہوا ہے۔ ہر طرف بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نئی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے، یہی نہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو بار اور بجلی کی قیمت میں ایک بار لیکن بڑا اضافہ بھی تنقید کے ’’کار خیر‘‘ میں اضافے کی وجہ بنا ہے۔موجودہ حالات جیسے بھی ہیں اِن کا جواب تو موجودہ حکومت کوعوام کے سامنے دینا ہی ہوگا لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح موجود ہے کہ بدانتظامی ہمیشہ حکمرانوں کو لے ڈوبتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بائیس سالہ جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل ہوئی، اِس کو صرف اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت کیسے کہا جاسکتا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں متعدد بار برملا کہہ چکے ہیں اُنہیں نظام مملکت سمجھنے اور پھر سنبھالنے میں طویل وقت لگا اور اب بھی عوامی اجتماعات میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دورِ اقتدار میں اُن سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ سابق وزیراطلاعات اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری بھی برملا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلا شبہ یہ غلطیاں انتظامی امور کو برباد کرنے کے بعد حکمرانوں کے لیے کانٹوں کا ہار بن جاتی ہیں ۔ ہمارے سیاست دانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی ایسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے سیاسی مخالفت اور انتقام کو بھی کانٹوںکے ہار میں شامل کرلیتے ہیں اور نتیجے میں پھر انتشار کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور عام آدمی براہ راست اِس سے متاثر ہوتا ہے۔
ملک میں بجلی کا بحران ہمیشہ نئی آنے والی حکومت کے لیے ہوش رُبا اور دہلادینے والا ثابت ہوتا آیا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیر قیادت اتحادی جماعتوں کی حکومت بھی روایتی الزام تراشی کا سہارا لیکر ایک دوسرے کو بجلی کے بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ اِس وقت بے جا الزام تراشی کی بجائے انتظامی امور پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ میرٹ کی پالیسی سے انتظامی امور چلائے جائیں۔
ایسی ہی ایک مثال پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی ملتی ہے جب گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (گیپکو) سے ایک انجینئر کو تبدیل کر لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لیسکو کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات کیا گیا پھر اس آفیسر کو نوازتے ہوئے قبل از وقت ریٹائرمنٹ دے دی گئی تاکہ وہ بھاری پنشن اور دیگر مراعات سے ’’فیض یاب‘‘ ہوسکیں، اُس وقت وفاقی وزیر میاں حماد اظہر صاحب نے بڑے کمال مہارت سے اس افسرکو بعد از ریٹائرمنٹ تین سال کے لیے ملک کی سب سے اہم بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنی لیسکو کا سی ای او تعینات کرایا ، اب خدا جانے انصاف پسندی کا نعرہ لگانے والی جماعت کے اہم ترین وزیر جو سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کے صاحبزادے ہیں ،کو کسی فرح گوگی نے مجبور کیا یا انہوں نے اپنی ارائیں برادری کو نوازتے ہوئے چودھری محمد امین کے لیے اتنی خیر پیدا کی جو آج کل گریڈ22 کے برابرسپیشل گریڈ (ایم پی ون)میں تعیناتی کے بعد ملکی پاور سیکٹر میں سے قومی خزانہ کے لیے مہنگے ترین سی ای او ثابت ہورہے ہیں۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے پاور سیکٹر میں کوئی اور انجینئر اس قابل نہیں تھا جو اپنی ترتیب اور میرٹ پر تعینات ہوتا۔ پھر لیسکو کے معاملات کو دیکھ لیں کیا لیسکو میں کوئی عام شہری بغیر رشوت اور سفارش کے، سنگل فیز گھریلو کنکشن کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا عمران خان کے علم میں نہیں تھا کہ اُن کے وزیر کیا کرتے رہے ؟
یقین جانیے ان سب افسروں کے گھروں میں بجلی کے ڈبل سورس سے بجلی کی سپلائی جاری ہے لیکن عوام کی بجلی بند ہے، عوام کو اوور بلنگ بھی جاری و ساری ہے اور بجلی چوری بھی اعداد و شمار میں ہیر پھیر سے کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ پر جو نوٹس لیا ہے، اس کی خیر عام صارفین بجلی تک نہیں پہنچ سکی۔ کڑے وقت میں بھی انتظامی امور میں میرٹ کی پالیسی کو پروان نہ چڑھایا گیا تو موجودہ حکومت بھی بجلی بحران میں بری طرح پھنس جائے گی،جان لیوا مہنگائی جو عوام کے گلے پڑ چکی ہے اس کے پیچھے بھی نوازے جانے کے ایسے ہی فیصلے ہیں ۔ اِسی لیسکو میں پاکستان کی بہترین کمپنیوں کو چھوڑ کر سری لنکا سے بجلی کے ٹرانسفارمرز خریدے جاتے ہیں ، ایسے میں لوڈشیڈنگ کا نوٹس بیان سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ایسے امور کو احتساب کے اداروں نے کیونکر نظر انداز کیا جو آج فوج کے حساس اداروں کو نوٹیفائیڈ کرکے آئندہ ایسی تعیناتی کا دروازہ بند کرنا پڑاہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button