ColumnImran Riaz

بے لگام ! .. عمران ریاض

عمران ریاض

پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ چونکہ اسے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت کی جارحیت کا سامنا تھا تو ریاست پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے مضبوط فوج کی ضرورت تھی ۔ لہٰذا ریاست پاکستان نے اول روز سے اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے ریاستی وسائل کا بڑا حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔ایک طرف پاکستان پہلے روز سے سکیورٹی سٹیٹ بن گیا تو دوسری طرف قائد اعظمؒ کی بے وقت موت اور لیاقت علی خان کے قتل کی وجہ سے پاکستان میں بڑے قد کاٹھ کے سیاسی رہنما کا خلا پیدا ہو گیا اور اس وقت کی سیاسی قیادت نئے الیکشن کی طرف جانے کی بجائے محلاتی سازشوں میں مصروف ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند سالوں میں اتنے وزیراعظم تبدیل ہوئے کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی مذاق بن کر رہ گئی۔ بعد ازاں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے سیاستدانوں نے افواج پاکستان کے سربراہ ایوب خان کو سیاست میں شریک کرتے ہوئے انہیں کابینہ کا رکن بنا کر افواج پاکستان کو سیاست میں ایسا ملوث کیا کہ آج کا دن ہے۔

افواج پاکستان کی پسند اور نا پسند کے گرد ہی گھومتی حکومت کسی بھی پارٹی یا سیاستدان کی ہو، خارجہ امور سمیت بعض دیگر امور کی سمت فوج ہی طے کرتی ہے اور ریاست پاکستان کی سب سے بڑی اور طاقتور سٹیک ہولڈر بن چکی ہے۔ سیاستدان نے فوج کی اس حیثیت کو چیلنج کیا تو انہیں منہ کی کھانا پڑی مختصراً یہ کہ افواج پاکستان اور سیاست ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے،

اگرچہ آخری فوجی حکمران جنرل مشرف
2008میں اقتدار سے علیحدہ ہوگئے لیکن اس کے باجود ملکی سیاست کی سمت فوج کا طاقتور ترین ادارہ ہی طے کرتا رہا۔اسی ارینج منٹ کے تحت افواج پاکستان نے 30سال سے اقتدار میں رہنے والے شریف خاندان اور بھٹو خاندان سے جان چھڑا کر ایک نئی سیاسی قیادت متعارف کرانے اور اسے اقتدار میں لانے کا منصوبہ 2010 میں بنایا اور اس مقصد کے حصول کے لیے جس سیاسی گھوڑے کو میدان میں اتارا گیا اُس کا نام عمران خان تھا۔ 2013 کے الیکشن کے وقت اگرچہ عمران خان کی پارٹی اچھی خاصی بڑی سیاسی پارٹی بن کر سامنے آ چکی تھی لیکن ابھی وہ ملک بھر سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہ آئی تھی تو اسے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت دے کر مرکز میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کا رول دے دیا گیا۔ \2014 میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی سے اس پارٹی یعنی تحریک انصاف سے ایک حکومت مخالف تحریک چلوائی گئی یہاں تک یہ
پارٹی پر 126روز تک حکومت کے خلاف دھرنے کی شکل میں سڑکوں پر نبرد آزما رہی لیکن اس کے باوجود یہ سیاسی جماعت اس وقت کی نواز حکومت کو گرانے میں کامیاب نہ ہوسکی تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی۔ یوں نواز حکومت کو رسوا کرکے نہ صرف گھر بھیج دیا گیا بلکہ اپنے لاڈلے عمران خان کا راستہ صاف کرنے کے لیے نواز شریف کو قید و بند کی سزائیں سنا کر ان کو میدان سے ہی نکال دیا گیا اور عمران خان کے لیے واک اوور جیسی صورتحال بنا کر انہیں سیاسی میدان میں اُتاراگیالیکن تمام تر ریاستی حمایت کے باوجود خالی میدان میں بھی وہ سادہ اکثریت نہیں لے پا رہے تھے تو پھر الیکشن کے روز انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے آر ٹی ایس کا سسٹم بظاہر خراب کروا کے اس لاڈلے کامیابی دلائی اس کے باوجود جب حکومت سازی کے لیے قومی اسمبلی کے مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری نہ ہوسکی تو اپنی پرانی اور قابل پارٹنر پارٹیوں ایم کیو ایم اور قاف لیگ وغیرہ کومجبور کیا کہ اس لاڈلے کا ساتھ دیں یعنی بھیڑ اور بھیڑیے کو ایک ہی تالاب سے پانی پلایا گیا، بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔

 

لاڈلے کو اُنگلی پکڑ کرحکومت چلانے کا طریقہ سکھایا گیا اور اس کے راستے کے تمام کانٹے اپنے ہاتھوں سے صاف کیے لیکن جب لاڈلے سے اِس کے باوجود ریاستی اور حکومتی معاملات نہ چل پائے اور عوام میں لاڈلے کے خلاف نفرت کی لہر شروع تو اس لہرنے اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تمام خرابیوں کا لاڈلے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو زمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا یہی وہ وقت تھا جب اسٹیبلشمنٹ نے لاڈلے سے فاصلہ قائم کرنا شروع کر دیا تاکہ خود کو اس بدنامی سے بچا سکے یہ صورتحال جاری تھی کہ 6اکتوبر 2021 کا دن آگیا جب آرمی چیف نے ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے کے احکامات جاری کیے اور اس پر عمران خان صاحب اڑ گئے اور انہوں نے آرمی چیف کے اس فیصلے کی توثیق سے انکار کردیا، بس وہ دن تھا کہ اس کے بعد دونوں ستونوں میں دوریاں بڑھتی چلی گئیں ۔ اپوزیشن نے اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے اپنے اندرونی اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے انہیں قومی اسمبلی سے عدم اعتماد کی تحریک منظور کرواکے حکومت سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا عمران خان ماضی کی طرح اس دفعہ بھی پر اعتماد تھے کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ان کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیںلہٰذا اسٹیبلشمنٹ انہیں بچالے گی لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر چکی تھی جس میں آخری دم تک قائم رہی اور نتیجتاً عمران حکومت کو گھر جانا پڑا عمران خان کو فوج کی غیر جانبداری پر شدید غصہ تھا جس کا اظہار انہوں نے غیر جانبدار کو جانور سے تشبیہ دے کر کیا۔

کبھی کہا کہ نیوٹرل رہنے کی اللہ نے ہمیں آپشن ہی نہیں دی ۔کبھی میر جعفر سے تشبیہ دی اور بعد میں کہا کہ نہیں میں نے میر جعفر شہباز شریف کو کہا۔کرتے کرتے یہ بے لگام گھوڑا یہاں تک پہنچ گیا اور اس نے کہہ دیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرگیا تو سب سے زیادہ نقصان فوج کے ادارے کو ہوگا پھر پاکستان کو ڈی نیوکلیئر کر دیا جائے گا اور پھر پاکستان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا، اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلہ کرتے ہوئے انہیں اقتدار نہ دیا تو۔عمران خان پتا نہیں کسی بیماری میں مبتلا ہیں یا پھر ان کے اردگرد والوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ حق اور سچ ہیں۔ وہی صیح معنوں میں صادق و امین ہیں وہ سیاست نہیں جہاد کر رہے ہیں بلاں بلاں یعنی ساری خوبیاں اپنے اندر اور ساری خامیاں دوسروں میں۔

ایک تقریر میں موصوف یہاں تک فرما گئے کہ اگر انہی لوگوں کو واپس اقتدار میں لانا تھا تو اس سے تو بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم ماردیتے۔ میں اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ پاکستان میں سیاستدانوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بہت زیادتیاں ہوئی ہیں ایک وزیر اعظم کو بے گناہ ہوتے ہوئے تختہ دار پر چڑھایا گیا دوسرے کو ملک بدر کیا تیسری وزیر اعظم راولپنڈی کی سڑکوں پر قتل ہوگئی لیکن ان کے سیاسی وارثوں نے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بات کرتے ہوئے کبھی ریڈ لائن کراس نہیں کی تھی۔ پاکستان کے نیوکلیئر کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ اس پر بات کرنے سے قبل دس مرتبہ سوچنا چاہئے لیکن عمران خان اس قدر بے لگام ہو چکا ہیں کہ جو دل میں آئے، جس کے متعلق آئے بول دیتے ہیں۔ ارے بھائی اس اقتدار کے ساتھ بائیس کروڑ لوگوں کی زندگیاں جڑی ہیں، کیسے آپ کو پکڑا دیا جائے، باقی جہاں تک بد زبانی کا تعلق ہے ،بہت ہوگیا بہت، اب لگام ڈالنا ہوگی وگرنہ یہ نا قابل تلافی نقصان کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button