Editorial

طویل لوڈشیڈنگ پر وزیراعظم کا اظہار برہمی

وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ہر صورت میں کم کیا جائے،آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے عوام مشکل میں ہیں، وضاحتیں نہیں چاہئیں، شہریوں کو مشکل سے نکالیں۔ اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ صرف 2 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ 10 گھنٹے سے زائد ہے۔ اگر آپ مجھے لوڈشیڈنگ کی تاویل دے رہے ہیں تو میں نہیں مانتا۔ دو گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ ہوئی تو آپ لوگوں کو نوکری سے فارغ کردوں گا۔ وزیراعظم نے وزراء اور حکام کی وضاحتیں مسترد کر دیں،
یہ روداد وزیراعظم محمد شہبازشریف کی زیر صدارت لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل اور توانائی کے تحفظ کے لیے پالیسی اقدامات سے متعلق اجلاس کی ہے ، جس میں افسران نے اُنہیں بتایا کہ صرف دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جبکہ باخبر وزیراعظم کے طور پر میاں محمد شہبازشریف نے ان کو حقائق ظاہر کرکے بلاشبہ لاجواب کردیا ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزرا اور متعلقہ وزارتوں کے حکام نے بھی شرکت کی اور لوڈ شیڈنگ کی وجوہات، محرکات اور اس کے سدباب کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق وزیراعظم کی زیرصدارت 5 گھنٹے طویل اجلاس میں لوڈشیڈنگ میں کمی کا ہنگامی پلان 24 گھنٹے میں طلب کر لیا گیا ہے اور یقیناً ابتک پلان وزیراعظم کو پیش کیا جاچکا ہوگا۔ قریباً چند ہفتے پہلے توانائی ڈویژن حکام نے وزیرِ اعظم کو کام نہ کرنے کی وجہ بتائی تھی کہ ہم نے نیب کے خوف کی وجہ سے کوئی کام نہیں کیا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے خوف سے فیصلہ سازی متاثر ہوئی، ایل این جی بروقت نہیں خریدی جا سکی۔
بجلی کی قلت نہیں، کارخانے ایندھن نہ ہونے اور فنی خرابیوں کے باعث بند پڑے ہیں اِن میں سے اٹھارہ بجلی گھروں کے بعض غیر فعال یونٹس فنی نقائص پر ایک سال سے بند ہیں۔ سات پاور پلانٹس ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔کئی پاور پلانٹس ایندھن نہ ملنے پر بند ہیں، سابقہ حکومت میں فنی خرابیاں دور کرنے، بر وقت مرمت اور فاضل پرزوں کی تبدیلی نہیں کی گئی، زیادہ تر خرابیاں انتظامی نوعیت کی اور کچھ کا تعلق پالیسی فیصلوں سے ہے۔
وزیراعظم میاںمحمد شہبازشریف کے سامنے پاور ڈویژن حکام نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ بندش کا شکار پاور پلانٹس 5 ہزار 751 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، ان میں سے 9 پاور پلانٹس دسمبر 2021ء سے بلوں کی عدم ادائیگی اور ایندھن کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیںاِس موقع پر بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صورتِ حال پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے نقائص اور فنی خرابیاں فوری دور کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن لوڈ شیڈنگ کی موجودہ صورتحال کی صورت میں نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بلاشبہ اِس وقت ملک میں غیر اعلانیہ اور بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے اور نظام ِ زندگی قریباً قریباً ٹھپ ہوچکا ہے، شدید گرمی کے موسم میں غیر اعلانیہ اور طویل لوڈ شیڈنگ کا جواز یقیناً سامنے آنا چاہیے کیونکہ وزیرپاکستان نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی پاور ڈویژن کو لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کی ہدایت کی تھی لیکن قریباً ایک ماہ کے بعد دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں اِن ہدایات پر اثر نظر آرہا ہے تاہم میاں محمد شہبازشریف حقائق سے مکمل طور پر باخبر ہیں اور انہوں نے پاور ڈویژن کے ذمہ داران کے اِس موقف کو یکسر مسترد کردیا کہ ملک میں دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،
ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے سربراہ کو ایسے ہی باخبر ہونا چاہیے تاکہ افسر شاہی کو غلط بیانی کی جرأت نہ ہو اور وہ حقیقت کی درست منظر کشی کریں، شاید کوئی اور سربراہ ہوتا تو وہ اس شاید افسر شاہی کی بات پر یقین کربھی لیتا لیکن میاں شہبازشریف نے اصل صورتحال اُن کے سامنے رکھ دی ہے جس کا عوام کو سامنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی خبریں بتاتی ہیں کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 8 سے 14گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں دس گھنٹے سے زائد بدترین لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھرکردیا ہے۔ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) میں شارٹ فال ایک ہزار میگاواٹ سے بڑھ گیا ہے اسی لیے لیسکو نے بازار اور مارکیٹیں سرِشام بند کرانے کی تجویزدے دی ہے۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں بھی 8 سے 10گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 15 سے16 گھنٹے پہنچ چکا ہے۔ملک میں بجلی کے شارٹ فال کی بات کی جائے تو سرکاری رپورٹ کے مطابق بجلی کی طلب بلند ترین سطح پر برقرار ہے اور شارٹ فال 7 ہزار 200  میگا واٹ ہوچکا ہے۔
بجلی کی پیداوار 20 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے جبکہ طلب 27 ہزار 200 میگا واٹ سے زائد ہے ایک اور خبر کے مطابق آر ایل این جی کی قلت سے متعدد پلانٹس بند ہیں، گیس نہ ہونے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی بجلی کی فراہمی بند ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کیے جارہے ہیں کیونکہ نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے، صنعتی شعبہ بجلی اور گیس کی قلت پر سراپا احتجاج ہے اور اِن سے منسلک دیہاڑی دار افراد اپنی جگہ پریشان ہیں کیونکہ بجلی اور گیس ملے گی تو ہی صنعت کا پہیہ چلے گا۔ پاور ڈویژن کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی کی فراہمی بند کی جاچکی ہے تو یقیناً ان کے لیے برآمدی آرڈر پورے کرنا مشکل ہوگا ۔ اِس وقت ہماری قومی سطح کی  صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں تو بیک وقت دوسرے کئی کام رک جاتے ہیں، بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے اسباب جو بھی ہوں، سابقہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے یا جو بھی کیا جائے کیا پاور ڈویژن کومتوقع طلب و رسد کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر اقدامات نہیں کرنے چاہیے تھے
حالانکہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف ایک سے زائد بار انہیں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے ہدایات جاری کرچکے ہیں۔ نئی حکومت کو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ وزیراعظم ایک سے زائد بار اِس بارے میں خصوصی ہدایات دے چکے ہیں پھر کیونکر یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا حالانکہ مسلم لیگ نون کے پہلے ادوار میں ملک میں بجلی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی گھر نصب کیے جاچکے ہیں، عوام کو شدید گرمی میں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے، صنعتوں کا پہیہ بھی رک رہا ہے۔ وقفے وقفے سے بجلی کی آنکھ مچولی نے عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کاروباری زندگی بھی شدید متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ گھروں میں بچے، بزرگ اور خواتین کا گرمی میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے برا حال ہے بلکہ لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن بنادی ہے اِس لیے بہت ضروری ہے کہ اِس معاملے کو دیکھا جائے اگر تیل کی قلت کا سامنا ہے تو قلت دور کی جائے اور بجلی گھروں میں فنی نقائص کا مسئلہ ہے تو ابتک دور ہوجانے چاہئیں تھے کیونکہ بہت پہلے وزیراعظم شہبازشریف یہ وجوہ سامنے آنے کے بعد ہدایت کرچکے تھے۔ پچھلی حکومت کی غلط حکمت عملی کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہیے ۔
اتحادی حکومت بالخصوص مسلم لیگ نون کو حالیہ بجلی بحران کا ذمہ دار قطعی نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اِس گمبھیر معاملے کو پوری توجہ سے دیکھا جائے گا اور جلد از جلد بجلی بحران کا خاتمہ کیا جائے گا کیونکہ شدید گرمی میں عوام کو مزید آزمائش میں نہیںڈالا جانا چاہیے۔ جمہوری حکومت کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کوششوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے لیکن پھر بھی یہ معاملہ ایسا نہیں کہ اِس کو صرفِ نگاہ کرکے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button