Editorial

کامیاب دورہ ترکی اور اہم معاہدے

وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے دونوں برادر ممالک کے درمیان بہترین دوطرفہ تعلقات کو مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کی نئی بلندیوں تک پہنچانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔اِس کامیاب دورے کے نتیجے میں پاکستان اور ترکی کے مابین سات اہم معاہدوں پر دستخط کیے گئے ۔ ترکی کی پریذیڈینسی آف سٹریٹجی اینڈ بجٹ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی آف پاکستان۔ نالج شیئرنگ پروگرام کے فریم ورک ۔ ترک وزارت ٹرانسپورٹ وانفراسٹرکچر اور وزارت مواصلات پاکستان کے درمیان ہائی وے انجینئرنگ۔ تجارت اور معاشی تعلقات کے فروغ۔ وزارت خزانہ کے درمیان فنی تعاون پروٹوکول۔ قرضوں کے انتظام سے متعلق تعاون۔ گھروں کے شعبوں میں تعاون۔ وزارت ماحولیات شہری ترقی وموسمیاتی تبدیلی اور نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے گئے۔
پاکستان کی جانب سے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر تجارت نوید قمر جبکہ ترکی کی جانب سے وزیر ٹرانسپورٹ نے معاہدوں پر دستخط کئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ترک صدر طیب اردگان سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں پاک ترک تعلقات کی اہمیت کو اُجاگر کیا اورترک صدر سے مذاکرات اور ملاقات کو مثبت قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور تاریخی تعلقات کا ذکر کیا وزیراعظم پاکستان نے خصوصاً دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کے تعاون کو قابل ستائش قرار دیا۔ پاکستان کے تجارتی وفد کے دورہ ترکی میں طے پایا ہے کہ رواں ماہ بڑا ترک تجارتی وفد پاکستان کا دورے کرے گا اور یقیناً پاکستان چاہے گا کہ اُس دورے سے بھرپور نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
ترک صدر طیب اردگان نے بھی مشترکہ پریس کانفرنس میں دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے عزم کا اظہار کیا وہیں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ مختلف فورمز پر پاکستان اور ترکی مشترکہ مؤقف رکھتے ہیں ترک صدر نے افغانستان خصوصاً مقبوضہ کشمیر سے متعلق پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی حمایت کرتے ہیں اور یہ پہلا موقعہ نہیں کہ ترکی پاکستان کے ساتھ اِن معاملات پر ہم آہنگ ہوا بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے سامنے ترکی نے پاکستان کے موقف کی ہمیشہ تائید کرکے پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو معاشی میدان میں بھی ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور تجربے سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو اِس کا فائدہ پہنچ سکے۔
باہمی تعاون کے فروغ سے پاکستان اورترکی مضبوط ہوں گے تو اِس کا فائدہ یقیناً اُمت مسلمہ کو بھی پہنچے گا کیونکہ دونوں ممالک نے مختلف مواقعوں پر اُمت مسلمہ کی ترجمانی اور ٹھوس موقف کے ساتھ اقوام عالم کے سامنے اپنے قائدانہ کردار کو اُجاگر کیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے دو دوزہ دورے میں ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کے لیے خود کو نہ صرف مصروف رکھا بلکہ انہیں پاکستان میں ایسا ماحول فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی جو سرمایہ کاروں کے لیے موزوں سمجھاجاتا ہے اور انہوں نے دوطرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا نہ صرف عزم ظاہر کیا بلکہ اِس کے لیے ہر ممکن کوشش اور اقدامات اور سہولتوں کا بھی یقین دلایا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ ترکی کو ہم سفارتی اور معاشی لحاظ سے کامیاب دورہ گردانتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ہمیں برادر اسلامی ملک ترکی کی ترقی اور اُن کے تجربات سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ترکی سے زیادہ ہمیں ترکی کے تجربے اور ترقی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ مسلم دنیا میں ترکی اپنی ثقافت اور تاریخ کے اعتبار سے منفرد پہچان رکھتا ہے اور بلاشبہ ترکی آج جیسا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں تھا لیکن ترک قیادت نے بہترین اصلاحات کے ذریعے ترکوں کی تقدیر بدلی ہے اور یہی اصلاحات ہمارے کام بھی آسکتی ہیں کیونکہ ہم بیک وقت کئی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن سے فوراً نکلناانتہائی ضروری ہے ۔ ہر ریاست کی الگ داخلی و خارجی پالیسی ہوتی ہے اور اُسی کو مدنظر رکھ کر اپنے قومی مفاد میں فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن آج کے دور میں کم و بیش ہر ملک نے یہ حقیقت جان لی ہے کہ متذکرہ دونوں پالیسیاں معیشت سے جڑی ہوں تبھی ملک ترقی کرسکتا ہے اور اِس کی ان گنت مثالیں ہمیں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ آج دنیا بھر میں معیشت کی جنگ جاری ہے اگر کہیں گولہ بارود برسایا بھی جارہا ہے تو اِس کے پیچھے بھی معاشی مقاصد ہی ہیں۔
اِس لیے ہمیں معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے کامیاب ممالک کی معاشی پالیسیوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ آج تک جتنی بھی حکومتیں بدلی ہیں ہماری معاشی کیا، ہر شعبے کی پالیسی بدلتی رہی ہے، کہیں کسی پالیسی کا تسلسل نظر نہیں آیا۔ موجودہ حکومت معاشی بحران سے ملک کو نکالنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہے، اگرچہ ماضی میں ایسے فیصلے بروقت کیے جاتے تو آج عوام پر ان کے اثرات گراں نہ گذرتے، اب چونکہ اِن ناپسندیدہ مگر ناگزیر فیصلوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو اِس لیے انہیں قبول کرنے میں ہی ملک و قوم کا مفاد ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور معیشت کو اکھڑی سانسیں بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں کو دل و جاں سے خوش آمدید بھی کہا جائے اور انہیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کرکے احساس دلایا جائے کہ ہمارا ملک سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ملک ہے۔ انفرادی کوششوں کی بجائے مرکزی سطح پر اجتماعی کوششیں کی جائیں تو ہم درست سمت کی جانب سفر شروع کرسکتے ہیں
یہ اگرچہ بہت طویل سہی لیکن اِس کی منزل معاشی میدان میں کامیابیوں اورخوشحالی کی صورت میں ملتی ہے۔ ترک سرمایہ کاروں کو ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول ملتا ہے تو یقیناً نہ صرف باقی ترک سرمایہ کار بلکہ عالمی سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کریں گے اور اِس کے نتیجے میں ہماری معیشت کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ روزگار کے مواقعے بھی بڑھیں گے۔ ترک حکومت اور سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی کا اظہار کرکے ہماری معاشی ٹیم پر خوش آئند اعتماد کا اظہار کیا ہے، اب ہمیں اُن کے اعتماد پر پورا اُترنے کے لیے ہر ممکن کوشش کو بہرصورت بروئے کار لانا ہوگاتاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں پاکستانی وفد کے پرتپاک استقبال اور اہم سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ برادرانہ دوستی وقت کے ساتھ پائیدار معاشی تعلقات میں بدل رہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ترکی سے دونوں ملکوں کے مابین دوستی اور تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے، اہم شعبوںمیں تعاون کو فروغ دینے کے حوالے سے متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیںاِس لیے یہ دورہ پاک ترک دوستی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا اور باہمی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی اور پاکستان میں ترک سرمایہ کاری میں تیزی آنے سے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button