ColumnRoshan Lal

عمران، روس اور پاکستان .. روشن لعل  

روشن لعل
سرد جنگ سے موجودہ دور تک سوویت یونین یا روس اور پاکستان کے درمیان کبھی ایسے تعلقات نہیں رہے کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا قابل بھروسہ خیر خواہ سمجھا جاسکے۔ اس تاریخی پس منظر کے باوجود عمران خان کا خیال ہے کہ روس پاکستان کا پائیدار سہارہ بن سکتا ہے ۔ انہوں نے عین آئینی تقاضوں کے مطابق ختم کی گئی اپنی حکومت کے متعلق یہ دعویٰ بھی کر رکھا ہے کہ امریکہ نے سازش کے تحت انہیں اقتدار سے علیحدہ کروایاکیونکہ وہ روس اور پاکستان کے درمیان خیر سگالی تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عمران خان کے ان بیانات کے ان کے پرستاروں اور مخالفین پر کس قدر متضاد اثرات مرتب ہوئے ۔ عمران خان نے اچانک پاک ، روس تعلقات کے متعلق جو کچھ کہا اس پر کوئی سرسری بیان جاری کرنے کی بجائے انتہائی گہری اور بامعنی بات بھی ہو سکتی ہے مگر اس وقت تک سیر حاصل ثابت نہیں گی جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ عمران خان اور ان کے پرستار کس طرز فکر اور طرز عمل کے حامل لوگ ہیں ۔
عمران خان کے طرز فکر کے متعلق کچھ کہنے  سے پہلے یہ مد نظر رکھناضروری ہے کہ ان جیسے طرز فکر کے حامل لوگ کسی بھی معاملے کو گہرائی میں جاکر دیکھنے کی بجائے محض سطحی جائزے سے ہی کوئی رائے قائم کرنے کے عادی ہیں اور بعض اوقات تو سطحی جائزے کا تکلف بھی نہیں کرتے اور سنی سنائی باتوں پر کامل یقین کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر عمران خان کی بات کی جائے تو ان کے طرز فکر کو بڑی حد تک جنرل (ر) مرحوم حمید گل کی طرز فکر کا تسلسل قرار  دیا جاسکتا ہے۔ مرحوم حمید گل کو وطن عزیزمیں اس طرز فکر کا بانی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس طرز فکر کا بیج قیام پاکستان کے وقت اس غرض و غایت کے تحت بویا گیا تھا کہ لوگ یہاں ایک خاص عقیدے اور عقیدت کے لیے جان کی قربانی تک دینے کے لیے تیار ہوجائیں مگر ان کی قربانیوں کا درپردہ فائدہ اٹھانے والے کوئی اور ہی ہوں۔ ضیا دور میں اس طرز فکر کی آبیاری اس اہتمام کے ساتھ کی گئی کہ کوئی بھی  اس کی مخالفت کی جرأت نہ کر سکے اوراگر تمام تر جبر کے باوجود بھی کوئی مخالف پیدا ہو جائے تو ہر دلیل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی سرکوبی اور گردن زدنی کو واجب قرار دے دیا جائے۔
ضیا دور میں ہر مخالف آواز دباکر اس طرز فکر کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا گیا اوراس طرز فکر کے حامل لوگوں کی جو فوج ظفر موج تیار ہوئی اس میں متشدد ترین لوگوں کو اس افغان جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا جس کے متعلق اب کسی کو شک نہیں رہا کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔مقدس جہاد قرار دی گئی اس جنگ کے دوران سوویت یونین کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے لیے تاجک، ازبک، قازق، ترکمانی ، کرغیزی اور چیچن جہادی گروپ بنائے گئے۔ سوویت فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ نے جہادیوں کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد جہادیوں نے اپنی کارروائیوں کا مرکز وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کو بنا لیا جبکہ امریکہ نے خود کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھتے ہوئے اپنے معاشی مفادات کے لیے عرب ملکوں میں ڈیرے ڈالنا شروع کردیئے۔ اسامہ بن لادن کی طرح کے عرب جہادی مسلم اکثریتی ملکوں میں اپنا تراشیدہ اسلام نافذ کرنے نکلے تھے، انہوں نے عرب علاقوں میں امریکی اثر ورسوخ بڑھتے دیکھا تو اپنی دہشت گرد کارروائیوں کا رخ امریکہ اور یورپ سمیت عرب ملکوںکی طرف موڑدیا توان کی سرکوبی کے لیے امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی پالیسیاں بھی تشکیل دیں۔ واضح رہے کہ سرد جنگ  کے خاتمے کے فوراً بعدسوویت یونین کے جانشین بننے والے روس اور امریکہ کے درمیان نئی سرد جنگ تو نہیں مگر معاشی مفادات کے تحفظ کی ایک چپقلش شروع ہو گئی تھی۔
حمید گل کا جہاد اور جہادیوں کے ساتھ جو گہرا تعلق رہا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہادیوں سے دہشت گرد قرارپانے والوں کے خلاف جنگ میں جب امریکہ  نے پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کیا تو حمید گل نے ریکارڈ پر بیان دیا تھا کہ امریکہ کا اتحادی بننے کی بجائے ہمیں روس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے کیونکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کا جانشین بننے والے روس کی امریکہ سے چپقلش شروع ہو چکی ہے اور اس چپقلش میں اسے پاکستان جیسے ملکوں کے تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ جس خاص طرز فکر کے حامل لوگ ضیا دور میں نام نہاد افغان جہاد کے دوران تیار ہوئے تھے انہوں نے نہ صرف حمید گل کے مذکورہ بیان کو سراہا۔ دہشت گردی کی جنگ کے آغاز پر دیئے گئے حمید گل کے بیان کو سراہنے والے خاص طرز فکر کے حامل لوگوں نے قطعاً یہ سوچنا گورا نہیں کیا تھا کہ عالمی سطح پر بلاک بنانے والی جس سیاست نے سوویت یونین کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ، اب روس اس طرح کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔روس اور امریکہ کے درمیان معاشی مفادات کے حصول کی چپقلش کے باوجود روس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کسی قسم کی مخالفت نہیں کی تھی کیونکہ  امریکہ جن لوگوں کے خلاف سرگرم تھاان لوگوں کے وسط ایشیائی ریاستوں اور چیچنیا میں تباہی برپا کرنے والے اتحادیوں کا خاتمہ روس نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔ اس طرح حمید گل کی سوچ کی پیروی کرنے والے عمران خان کو یہ ا ندازہ نہیں کہ وہ روس سے جس قسم کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں وہ امیدیں کبھی بارآور نہیں ہو سکیں گی۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عمران حکومت کا خاتمہ کسی خارجی سازش کے تحت نہیں بلکہ داخلی عوامل کے سبب عین آئینی تقاضوں کے مطابق ہوا ۔ اصل میں امریکہ کے عمران حکومت نہیں بلکہ افغان ایشو پرپاکستان کے رویے پر تحفظات ہیں اور وجہ سے امریکہ نے ہمارے لیے FATF اور آئی ایم ایف کے ذریعے مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں ، روس بھی پاکستان کے اس رویے کا حامی نہیں ہے۔ یہاں جو کوئی بھی روس سے خاص قسم کی توقعات وابستہ کیے بیٹھا ہے وہ براہ کرم ان باتوں پر بھی غور کر لے کہ روس ہوا کا رخ دیکھ کر نہیں بلکہ ایک مستقل خارجہ پالیسی کے تحت کسی بھی ملک سے تعاون یا عدم تعاون کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button