Editorial

جمہوری استحکام کیلئے مفاہمت کی ضرورت

وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ملک کو خطرات کا سامنا ہے مگر میں جتھے کے سربراہ کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تمہاری ڈکٹیٹشن نہیں چلے گی، ایوان ہی فیصلہ کرے گا کہ انتخابات کب ہونے ہیں۔ بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں اور اس کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی جاسکتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ ڈکٹیشن گھر میں دو، ایوان کو نہیں۔ عوام نے فیصلہ کرنا ہے کیا ہمیں فتنے کا راستہ روکنا ہے یا اس کی اجازت دے کر ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ ماضی میں بھی تحریک انصاف کے مارچ میں ایک حاضر سروس افسر پر تشدد کیا گیا تھا اور آج پھر خونی مارچ کیا گیا۔
مہذب معاشروں میں خونی مارچ کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں مگر اس کے برعکس ہم نے بہت احتیاط کی کہ کسی کی جان نہ جائے، مگر جتھے کے سربراہ نے پورے ملک کو نقصان پہنچایا۔ کبھی دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی صوبہ وفاق پر حملہ کرے، صوبے کی حکومت کے سربراہ کے ساتھ وفاق پر حملہ کیا گیا۔وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے یہ جواب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے پائن ایونیو میں لانگ مارچ کے شرکاسے خطاب پر دیا جس میں سابق وزیراعظم پاکستان نے حکومت کوچھ روز کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ایک بار پھر مطالبہ کیا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں، حکومت چھ دن میں الیکشن کا اعلان کرے ورنہ ملک بھر سے کارکنوں کو لیکر دوبارہ اسلام آباد آؤں گا۔
فیصلہ توکیاتھا کہ الیکشن کی تاریخ تک یہاں بیٹھوں گا، 24گھنٹےمیں جوحالات دیکھے یہ ملک کوانتشارکی طرف لےجارہےہیں۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے اپنے خطاب میں واضح کردیا ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیںاور اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی جبکہ عمران خان نے چھ دن کی مہلت دیتے ہوئے دوبارہ اسلام آباد کا رُخ کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ پچیس مئی کے روز مجموعی طور پر ملک میں امن و امان کی جو صورتحال دیکھی گئی وہ انتہائی تشویشناک تھی، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مظاہرین آمنے سامنے تھے، عموماً ایسے مناظر کشمیر و فلسطین میں دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے مناظر پچیس مئی کودیکھے گئے، عام پاکستانی اِس صورتحال پر سنجیدہ تھا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں کیوں کہ ایک کے بعد ایک ایسی اطلاعات آرہی تھیں جن پر کوئی بھی محب وطن پاکستانی سنجیدگی ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
جب عام شہری کی نظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام اور خوف ختم ہوجائے تو پھر خرابی ہی خرابی باقی رہ جاتی ہے۔ یقیناً اِس وقت ملک بھر میں زندگی معمول پر آچکی ہے مگر چھ دن بعد دوبارہ آنے کا عندیہ اورپھر ایسے حالات کا خدشہ ہے جو ہم نے پچیس مئی کو دیکھے مگر اب دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے، ہماری سڑکوں پر دن بھر جو کچھ ہوا اور اِس سے قبل بھی جواب بالجواب کے طور پر کیاگیا وہ سبھی کچھ نامناسب اور مہذب معاشرے کے لیے ناقابل قبول تھا اور تب سے پچیس مئی تک پوری دنیا نے یہ مناظر کیمرے کی آنکھ کے ذریعے اپنے ذہنوں میں نقش کرلیے ہیں پس ہم
ایک الزام سے بری نہیں ہوتے اور دوسرا الزام لگ جاتا ہے،
ملک بھر ایسے ہنگامے ، جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑنے ہمارے درمیان موجود انتشار کو ملکی سطح پر ظاہر کردیا ہے، سیاسی قیادت کو اِس سلسلہ میں کوئی چارٹر سامنے لانا چاہیے جو سبھی کا متفقہ اور سبھی کے لیے قابل قبول ہو اورکوئی بھی اِس سے انحراف نہ کرے۔ بلاشبہ آئین پاکستان ہر پاکستانی کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن اِس کا قطعی مطلب نہیں کہ حالات ایسی نہج تک پہنچادیئے جائیں کہ ریاست اور عوام آمنے سامنے آجائیں ، سیاسی قیادت کو ایسی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاملات افہام و تفہیم اور پُرامن انداز میں حل ہوسکیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے اگرچہ ہماری سیاست کا اہم جُز رہے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِن کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے اور ہر معاملہ ایوان کے اندر خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہونا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکرز کے درمیان سیاسی مخاصمت کا خاتمہ کرنا چاہیے کیوں کہ اب سیاسی مخاصمت معاشرے کو تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
سیاست دان جمہوریت کو تقویت فراہم کرنے والے اقدامات کریں اور اپنے مثالی رویے کے ساتھ معاشرے سے اِن تلخیوں کا خاتمہ کریں جو آج ہر سطح پر پوری شدت کے ساتھ پائی جارہی ہیں، سیاسی جماعتیں حالات کا ادراک کریں اور اب اصلاح کی جانب آئیں کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے، سیاست بند گلی کا نام نہیں، سیاست میں تو سبھی کے لیے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں، سیاست دان جب خود برداشت کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے کارکنان کو بھی برداشت کی تلقین کریں گے تو کبھی انتخابات کے موقع پر خون خرابہ ہوگا اور نہ ہی چوک چوراہوں پر کارکنان سیاسی نظریات کی بنیاد پر گتھم گتھا ہوں گے، جمہوریت کے حسن کو داغ دار کرنے والی تمام چیزیں سیاست سے ختم کردینی چاہئیں، سیاست بند گلی میں پھنس جائے تو سوائے انتشار کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور لگتا یہی ہے کہ ہماری ملکی سیاست بند گلی میں جارہی ہے کیونکہ کوئی دوسرے کی بات کو اہمیت دینے یا درمیانی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں ہوتا،
تلخ باتیں کرکے انتشار کو مزید ہوا دینا تو جیسے سیاست کے لیے ناگزیر ٹھہرا ہے یہی نہیں بلکہ ریاست کے لیے قابل احترام اداروں پر تنقید بھی ایک سنگین روش اختیار کرچکی ہے حالانکہ یہ ادارے ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں اور ہر معاشرے میں اِن اداروں کو عزت و تکریم دے کر اُن کی بات من و عن مانی جاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں مجموعی طور پر آج کی سیاست میں تہذیب کی گراوٹ بھی جھلک رہی ہے افسوس کہ جن شخصیات نے بطور آئیڈیل قوم کو بہترین معاشرہ دینا ہے وہی بسا اوقات ایسا بیج بو دیتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے نفرت کا تناور درخت بن جاتا ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ سیاسی قیادت کے مابین تلخیوں میں کمی آئے اور آئندہ وہ سب کچھ نہ ہو جو پچیس مئی کے روز ملک کے بڑے صوبوں اور سڑکوں پر دیکھا گیا۔ شدید معاشی بحران سے دوچار ملک مزید سیاسی عدم استحکام کا قطعی متحمل نہیں ہوسکتااِس لیے خدارا پہلے ملک کو معاشی بحران اور ڈیفالٹ کے خطرے سے بچائیں اور قوم کی معاشی حالت کی فکر کریںکیونکہ موجودہ حکومت سے عوام کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button