ColumnRoshan Lal

ساون اور شیری رحمٰن …. روشن لعل

روشن لعل

برصغیر پاک و ہند میں عرصہ دراز سے ساون کا مہینہ ، برسات کے متبادل نام کے طور پر استعمال ہوتا چلا آرہا ہے ۔ یہاں انگریز دور میں مون سون کو بھی برسات کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال کرنے کا آغاز ہوا۔ اگر ساون کی بات کی جائے تو یہ دیسی یابکرمی کیلنڈر کا وہ پانچوں مہینہ ہے جو انگریزی کیلنڈر(Gregorian calendar) کے ساتویں مہینے( جولائی)کی سترہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ مون سون ایک مہینہ نہیں بلکہ جون سے ستمبر تک پھیلا ہوا بارشوں کا موسم ہے۔ ساون کے مہینے اور برسات کے موسم کے آغاز کی تاریخوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال ذہنوں میں اُبھر سکتا ہے کہ جب ساون یا بارشوں کی آمد میں کافی وقت باقی ہے تو ابھی سے ان کے متعلق باتیں کیوں شروع کردی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں،ملک میں جاری سیاسی افرا تفری کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب ہر طرف لانگ مارچ اور دھرنوں کا شور جاری ہے تو ایسے وقت میں ساون کی باتیں کرنا کیوں ضروری ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر مبصر اپنی توجہ اس حد تک لانگ مارچ اور دھرنوں کی افراتفری پر مرکوز کیے ہوئے ہیںکہ ایسا لگتا ہی نہیں کہ انہیں کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت مل سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ساون کی وجہ سے کوئی افراتفری پیدا ہونے سے پہلے یہاں مون سون ، برسات اور بارشوں کے لیے فرصت نکالنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جائے۔ کسی کے پاس ساون کے متعلق سوچنے کی فرصت چاہے ہو یا نہ ہو مگر ساون اور برسات نے ہر برس نہ صرف وارد ہونا ہوتا ہے بلکہ معمول سے کم، معمول کے مطابق یا پھر معمول سے زیادہ بارشوں کا تاثر چھوڑ کر رخصت بھی ہوجانا ہوتاہے۔
یہ بات کسی کے لیے کوئی راز نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے ملک میں پانی کی شدید قلت کے آثار نمودار ہو چکی ہیں۔ پانی کی قلت کے خطرات کی زد میں آنے والے جس ملک میں سطح زمین پر موجود میٹھے پانی کی 75 سے 90 فیصد دستیابی کا انحصارہر برس ساون اور مون سون کے دوران برسنے والی بارشوں پر ہو، کیا وہاں برسات کے موسم سے بے اعتنائی کا رویہ مناسب ہو سکتاہے۔ ہماری بے اعتنائی صرف مون سون، ساون یا برسات ہی نہیں بلکہ شاید ہر اہم معاملے کے لیے ہے۔ اس رویہ کی وجہ سے ہمارے ہاں ساون اور مون سون کے دوران ہونے والی بارشوں کی پیش بینی کا جو کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے یا بہت پہلے ہو سکتا ہے وہ عین برسات کے آغاز پر کیا جاتا ہے۔
اس
حوالے سے پوری دنیا کی بجائے اگر صرف جنوبی ایشائی خطے کی بات کی جائے (جس میں پاکستان بھی شامل ہے) تو یہاں اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے ذیلی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم (SASCOF) سال 2010 کے بعد سے اپریل کے آخری ہفتہ میں یہ پیش گوئی کرتا چلا آرہاہے کہ مون سون میں بارشیں کس حد تک برسیں گی۔ جو کام ایک بین الاقوامی ادارہ اپریل کے آخری ہفتے میں کردیتا ہے وہی کام پاکستان کا محکمہ موسمیات پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ جون کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں کرتا ہے ۔
واضح رہے کہ ہر سال مون سون کی پیش گوئی کے لیے سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم کے تحت منعقدہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ادارے اور ماہرین اپنے شیڈول کے مطابق جونہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اسی وقت اس نتیجے کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ مون سون کی بارشوں کے آغاز سے ڈیڑھ دو مہینے پہلے ان کی پیش گوئی کیوں کی جاتی ہے اور کیوں بلا تاخیر اس پیش گوئی کو میڈیا کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے ، اس بات کو پاکستان میں 2010 کے سیلاب کے بعد بننے والے انکوائری کمیشنوں کی سفارشات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ 2010 میں آنے والے سیلاب کی انکوائری ، مرکز اور صوبوں
کے تحت بننے والے ایک سے زیادہ انکوائری کمیشنوں نے کی تھی۔ ان سب کمیشنوں کی انکوائریوں میں کئی دیگر نکات کے علاوہ یہ بات بھی مشترک تھی کہ سیلابوں سے تحفظ فراہم کرنے والے محکموں کو مون سون کی آمد سے پہلے محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اور حفاظتی تعمیرات جیسے کام مکمل کر لینے چاہئیں۔
اب یہ بات ناقابل فہم ہے کہ محکمہ موسمیات اگر جون کے وسط میں شروع ہونے والے مون سون یا فلڈ سیزن سے ایک ہفتہ پہلے کوئی پیش گوئی جاری کرے تو اس پیش گوئی کے مطابق حفاظتی اقدمات کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
ہمارا محکمہ موسمیات نہ صرف سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم کی ہر سال تیار کی گئی مون سون کی پیش گوئیوں سے باخبر ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ہمارے لوگوں کا ان پیش گوئیوں کی تیاری میں اچھا خاص عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم کی مون سون کے لیے تیار کی گئی پیش گوئیاں ہر سال اپریل میں منظر عام پر آجاتی ہیں مگر یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آسکی کہ ہمارا محکمہ موسمیات ان پیش گوئیوںکی تیاری میں کردار ادا کرنے کے باوجود انہیں کیوں پاکستانی میڈیا کے سامنے نہیں رکھتا اور کیوں ان پیش گوئیوں کو صوبائی حکومتوں کو باضابطہ طور پر ارسال نہیں کیا جاتا۔ رواں برس بھی سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم نے 28 اپریل کو مون سون 2022 کے لیے پیش گوئی جاری کر دی تھی اور حسب سابق اس مرتبہ بھی ہمارے متعلقہ لوگوں نے اس پیش گوئی کے لیے بے اعتنائی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ سائوتھ ایشین کلائمٹ آئوٹ لک فورم کی حالیہ پیش گوئی اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ آزاد کشمیر سمیت ملک کے چاروں صوبوں کے اکثر علاقوں میں تو معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیاہے مگر گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے وہ علاقے جہاں برسنے والی بارشوں کا پانی ہمارے ہاں بہنے والے دریائوں میں آتا ہے، وہاں معمول کے مطابق یا معمول سے کم بارشوں کا عندیہ دیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہ اس وقت ہمارے ہاں کلائمٹ چینج یا محکمہ موسمیات کی وزیر محترمہ شیری رحمٰن ہیںاور وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل لوگوں کے نام سامنے آنے پر انہوں نے کہا تھا کہ کلائمٹ چینج (محکمہ موسمیات) کی وزارت انہیں ان کی خواہش پر دی گئی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ماحول پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ نہ صرف ان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کا تدارک بھی کرنا چاہتی ہیں۔ گو کہ کلائمٹ چینج کی وزارت سنبھالتے وقت محترمہ شیری رحمٰن نے انتہائی قابل قدر جذبات کا اظہار کیا تھا مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ساون اور مون سون کے لیے ان کی زیر قیادت کام کرنے والے محکمہ موسمیات کی بے اعتنائی اسی طرح ہے جس طرح کلائمٹ چینج کی سابق وزیر محترمہ زرتاج گل کے دور میں تھی۔ کلائمٹ چینج کی موجود وزیر محترمہ شیری رحمٰن اگر اپنے محکمے کو ماضی سے مختلف دیکھنا چاہتی ہیں تو انہیں سابقہ لوگوں سے بہتر اور مختلف کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button