Editorial

دفاعِ وطن ،پاک فوج اور ناقدین

سیاسی بحران نہ ہو اور سبھی سیاست دان ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سوچیں اور مل کر آگے بڑھیں ،یہ تصور تو اچھا ہے لیکن عملاً ناممکن۔ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، میں نہیں یا پھر تم نہیں، جب تک یہ سوچ ہمارے اندر موجود رہے گی،  عدم برداشت، انتشار، عدم تحفظ، غیر یقینی ، غربت و افلاس، معاشی مسائل اقوام عالم کے سامنے ہماری پہچان رہیں گے، بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان ایسی شخصیات موجود نہیں جو حالات کا ادراک کرتے ہوئے سبھی سیاسی قائدین کو ایک میز پر بٹھائیں اور اُنہیں سمجھائیں کہ قوموں کی تباہی و بربادی اور خوشحالی کے راستے کون کونسے ہیں اور ہم بطور قوم کس راستے پر چل رہے ہیں اور اِس کا انجام کیا ہوگا؟
کبھی سِسلین مافیا کے عروج و زوال کی کہانیاں تو کبھی مسلم تاریخ کے منفی کردارمیر جعفر اور میر صادق ، کبھی کھلے عام دھمکیاں تو کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں تلخ اور غیرحقیقی باتیں و دعوے، پتا نہیں یہ عدم استحکام اور عدم برداشت قائدؒ کے پاکستان کو کہاں پہنچائیں گے ۔ بقول محشر بدایونی ’’میرا ذکر آتے ہی چپ ہونے کا کوئی مدعا، کچھ تو آخر وہ مرے بارے میں فرمایا کریں‘‘ قائدؒ کے پاکستان اور عوام کو حسرت ہی رہی ہے کہ جتنے دعوے پاکستان اور عوام کا نام لیکر کیے جاتے رہے ہیں ان کا ایک فیصد بھی تو کہیںنظر آئے، سبھی ایک ہی دھن الاپ رہے ہیں اور اِس میں عوام کی چیخ و پکار دبی ہوئی ہے۔ ملکی سیاست میں اب جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے
اگرچہ بہت سی باتیں ہماری سیاست میں نظریہ ضرورت کی وجہ سے سیاست کا حُسن بن چکی ہیں مگرپھر بھی وقتاً فوقتاً بعض باتیں انتہائی کڑوی اور ناقابل یقین ہوتی ہیں، کبھی ماضی کی باتیں اور کبھی ماضی کی تاریخ دھرانے کی تیاری کی جارہی ہے تو کہیں ماضی کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے جوابی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے اوراس درمیان ریاستی امور جیسے رُک گئے ہیں، پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگرچہ اتحادی جماعتوں کی حکومت تشکیل پاچکی ہے لیکن ایوان میں اکثریتی جماعت تحریک انصاف اپنے استعفے دے کر عملاً ایوان سے باہر آچکی ہے، اب سیاسی جنگ ایوان میں دلائل کے ساتھ لڑنے کی بجائے عوامی اجتماعات میں لڑی جارہی ہے، جو باتیں ایوان میں کی جانی چاہئیں اب اجتماعات میں ہورہی ہیںایسی ہی کچھ باتوں پر(جن کا ذکر اب عام ہوچکا ہے) قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے اور وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے عمران خان کی تقریر پر سخت نوٹس لینے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نے فوج کے ادارے کی مثال سراج الدولہ اور میر جعفر کے حوالے سے دی جو قبیح حرکت ہے، اگر اس کو نہ روکا گیا تو بہت نقصان ہوگا،
آپ تو
لاڈلے تھے، آپ کو بچے کی طرح اس ادارے نے دودھ پلایا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ملک ریاست مدینہ نہیں کوفے کا منظر پیش کررہا ہے، ہماری حکومت امپورٹڈ نہیں، عمران خان امپورٹڈ ہے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر کوئی بھی رقیق حملہ اور انہیں کمزور کرنے کی سازش ملکی مفاد کے برعکس ہوگی۔ قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد کے متن میں کہاگیا کہ یہ ایوان پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم کے بیان کی بھرپور مذمت کرتا ہے، سابق وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ، انہوں نے اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی، یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی گئی کہ جیسے ادارے اپنے ملک کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ قرارداد کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج ملکی سرحدوں کا بلا خوف و خطر تحفظ کر رہی ہیں، سیاسی مقاصد کے لیے ریاستی ادارہ کو بدنام کرنے کی ہر کوشش ملکی مفاد کے خلاف ہے، یوں
مرتضی جاوید عباسی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی اسمبلی سے مذمتی قرارداد کی منظوری پر کہا کہ سارا شریف خاندان ہی جھوٹا ہے، نواز شریف اور شہباز شریف اس ملک کے اصل میر جعفر اور میر صادق ہیں،   مدینہ منورہ کے واقعے پر ہمارے خلاف ایف آئی آر کاٹ دیں۔ قومی اسمبلی میں قرار داد پیش ہونے سے ایک روز قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کے جاری کردہ پریس ریلیز پر ہم نے بات کرتے ہوئے سیاسی قیادت سے گذارش کی تھی کہ خدارا قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو اپنی سیاسی معاملات سے الگ یعنی دور رکھیں، اصولی طور پر تو سیاسی لڑائی ایوانوں کے اندر اور مہذب انداز میں لڑی جانی چاہئیں، سیاست کا جواب سیاست سے دینا چاہیے کیوں کہ یہی جمہوریت ہے اور یہی سیاست۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ عوام میں جڑیں مضبوط کرنے کی بجائے اقتدار کے لیے شارٹ کٹ تلاش کرتی ہیں اور جب اقتدار خطرے میں پڑتا ہے تو پھر ایسی گردانیں بیان کی جاتی ہیں جو ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہوتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں انتشار کی سیاست اپنے عروج پرہے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ایوان سے سڑکوں پر آچکی اور فوری عام انتخابات اور غیر ملکی سائفر کے معاملے پر اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،اتحادی جماعتوں کی حکومت انتخابی عمل اور بعض دیگر معاملات میں اصلاحات کے بعد عام انتخابات میں جانا چاہتی ہے، پنجاب میں گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی تقرری پر سابق اور موجودہ حکومتیں آمنے سامنے ہیں اور آئینی دائو پیچ لگائے جارہے ہیں مگر اِس سارے عمل میں ملک کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، اگر اب بھی فہم و فراست اور سیاسی دانش سے حالات پرقابو نہ پایاگیا تو یاد رہے کہ تاریخ کسی کردار کو نہیں بھولتی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button