CM RizwanColumn

مہنگائی، ڈالر اور اسحاق ڈار … سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

وزیراعظم شہباز شریف نے بشام میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ وہ عام آدمی کو ریلیف دینے اور مہنگائی کم کرنے کے لیے اپنے کپڑے تک بیچ دیں گے۔ عوام کی محبت میں یہ ایک جذباتی فقرہ تو ہوسکتا ہے لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دینے جیسا اقدام کسی صورت بھی قرار نہیں پاسکتا۔ جیسا کہ ہمارے دو دوستوں چودھری خرم گجر اور حاجی اکبر سندھو نے گزشتہ دنوں ایک عید ملن تقریب کے دوران غیر رسمی گفتگو میں کہا ہے کہ سابقہ عمران حکومت پر سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ اس دور میں غریب عوام کا مہنگائی کی وجہ سے جینا دوبھر ہو گیا اور گزرے زمانوں میں زمینداروں اور کاشتکاروں کا ایک معمول ہوتا تھا کہ گندم کی کٹائی کے دوران گندم بوریوں میں ڈالتے ہوئے یا ریڑھیوں، ٹرالیوں پر لادتے ہوئے جو گندم نیچے کھیتوں میں گر جاتی تھی وہ مالکان یا زمینداران نہیں اٹھاتے تھے بلکہ وہ کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں اور مزارعت کرنے والے کسانوں کا حق ٹھہرا دیا جاتا تھا اور ان غریبوں کے لیے کٹائی کے سیزن میں اتنی گندم اکٹھی ہو جاتی تھی کہ وہ سارا سال گندم یا آٹے کی قلت کا شکار نہ ہوتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سابقہ زمانوں میں ملک میں کبھی گندم کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے زمینداروں اور کاشتکاروں نے اس سخاوت سے ہاتھ کھینچا ہے ملک میں گندم کی قلت جیسے عذاب کاسامنا اکثر پوری قوم کو کرنا پڑتا ہے۔ان کا استدلال تھاکہ اسی طرح جب سے پاکستان کے حکمران طبقے نے غریب عوام کو اپنی ترجیحات سے نکال دیا ہے تب سے ان کی حکومتوں کا عارضی پن بھی مستقل ہوگیا ہے۔ حال ہی میں دس سالہ پیکیج اور بندوبست پر قائم کی جانے والی عمران حکومت کا محض ساڑھے تین سال میں رخصت ہوجانا اور بقول عمران’’چوہوں‘‘ کی حکومت بن جانا اس کی واضح دلیل ہے اب جبکہ سابقہ متحدہ اپوزیشن کی برسر اقتدار حکومت کو ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا ہے تو سرکاری اعدادو شمار پھر سے مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ یہ حکومت گوکہ ایک عارضی عرصہ کے لیے قائم ہوئی ہے مگر اس کی سب سے بڑی ذمہ داری عوام کو ریلیف دینا ہے جوکہ پچھلے چار سال سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
عام طور پر مہنگائی کی ایک وجہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جاتا ہے تو دوسری بڑی وجہ ڈالر کی قیمت بھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی دور ہو جب ڈالر کی قیمت کا ذکر ہوتا ہے تو سابق نواز حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام ضرور ذہن میں آتا ہے کہ وہ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے میں کمال معاشی مہارت رکھتے ہیں۔ اب جبکہ مسلم لیگ نون کے رہنما میاں شہباز شریف کی حکومت ہے تو پھر سے توقع کی جارہی ہے کہ اسحاق ڈار کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ حکومت ملک میں ڈالر کی قیمت کے ذریعے مہنگائی کو قابو کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں قائم ہونے والی نئی مخلوط حکومت کو درپیش مسائل میں سرِفہرست معیشت کی بدحالی ہے جو موجودہ حکومت کے مطابق تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ موجودہ حکومت کو گزشتہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 35 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ، زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 17 ارب ڈالراورمرکزی بینک کو گیارہ ارب ڈالر ورثے میں ملے جبکہ دوسری جانب تیل و اجناس کی عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں پر بھی دباؤ
برقرار ہے جو ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت کو معاشی سطح پر مشکل فیصلوں کے کڑے امتحان کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں معاشی ٹیم کے رکن اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کردار ایک بار پھر اہم بتایا جا رہا ہے۔ اسحاق ڈار نومبر 2017 سے برطانیہ میں مقیم ہیں، اگرچہ تین ہفتے قبل مفتاح اسماعیل کو مشیر برائے خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تاہم اسحق ڈار کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پس پردہ اسحاق ڈار اس وقت نئی حکومت کی معاشی پالیسی کو مرتب کرنے میں سرگرم ہیں۔ سابقہ وفاقی وزیر خزانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے نئی حکومت آنے کے بعد بیک گراؤنڈ میں کام شروع کر دیا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے معیشت کی صورتحال پر مشاورت بھی کی تھی۔
مارچ کے آخر اور اپریل کے پہلے ہفتے میں ملک میں سیاسی بحران نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کیا۔ تاہم مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہونے کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں ساڑھے چھ روپے سے زائد کی کمی دیکھی گئی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈارجو مسلم لیگ نواز کا معاشی دماغ سمجھے جاتے ہیں۔ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ڈالر کی قیمت 160 روپے تک نیچے آ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اسحاق ڈار 2013 میں مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ تھے اور انہوں نے اپنے دور میں ایک ڈالر کی قیمت کو 104 روپے تک محدود رکھا تھا۔ نواز لیگ کے سیاسی مخالفین کی جانب سے اسحاق ڈار پر مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کا الزام لگایا جاتارہا جوان کے مطابق مارکیٹ میں ڈالر کی رسد و طلب کے اصولوں کے خلاف تھا۔
نواز حکومت کے
خاتمے کے بعد اسحاق ڈار بھی وزیر خزانہ نہ رہے۔قریباً ایک سال شاہد خاقان عباسی حکومت کے2018 میں خاتمے کے وقت ایک ڈالر کی قیمت 124 روپے تھی تاہم اس کے بعد اس کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا۔ ڈالر کی قیمت جو تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی دو سالوں میں 165 روپے سے تجاوز کر گئی تھی پھر اس میں کمی دیکھی گئی اور اس کی قیمت 152 روپے تک گر گئی تاہم موجودہ مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا اور ڈالر کی قیمت 160، 170 اور 180 روپے کی حدود کو عبور کرتے ہوئے موجودہ اپریل کے پہلے ہفتے میں 189 روپے کی سطح تک کو چھونے کے بعد 188.18 روپے پر اس وقت بند ہوئی جب عمران حکومت کا اقتدار میں آخری ہفتہ تھا۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے مارکیٹ میں اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے۔
ابھی تک نئی حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن پھر بھی ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی استحکام آیا اور معاشی استحکام بھی پیدا ہوا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھنے میں آئی۔ اسحاق ڈار کے مطابق گذشتہ دور میںڈالرئزیشن آف اکانومی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے قیاس آرائیوں پر مبنی اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کا رجحان جاری ہے اور ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر تک گر گئے ہیں۔ مرکزی بینک کے پاس اس وقت 10.85 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اور ذخائر کی یہ سطح دو مہینوں کی درآمدات کے لیے کافی نہیں ہے۔نئی حکومت کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت سٹرکچرل ریفارمز اور مالیاتی و زری پالیسیوں کو نئے سرے سے مربوط کرے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی آمدنی میں اضافے اور اخراجات میں کٹوتی کے لیے اصلاحات کی جائیں گی۔ اصلاحات کا یہ ایک پورا پروگرام ہوگا جس کا اثر ڈالر کی قیمت کے ساتھ دوسرے معاشی اشاریوں پر بھی پڑے گا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت یہ کام نہیں کر سکی جن میں خاص سٹرکچرل ریفارمز تھیں جو معیشت میں ترقی کے لیے بہت لازمی تھیں۔ریونیو میں اضافہ بھی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اوراپنے اخراجات کم کریں گے تاکہ مالیاتی خسارے کو نیچے لا سکیں تاہم ساری چیزیں مسلم لیگ نواز کے ریڈار پر ہیں اور جب وہ اپنے منصوبے پر عمل کریں گے تو روپے کی قدر میں بہتری اور اس میں استحکامِ آئے گا۔
سابق وزیر خزانہ کی جانب سے ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی کے دعوے کو کرنسی اور معیشت کے ماہرین اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے نون لیگ کی حکومت دوسری حکومتوں کے مقابلے میں اچھی رہی ہے اور جب بھی نواز لیگ اقتدار میں آتی ہے تو کاروباری طبقے میں اعتماد کی بحالی ہوتی ہے۔ نواز لیگ حکومت کے آنے کے بعد کاروباری حلقوں میں اعتماد بحال ہوتا ہے اور ان کا ایک جذباتی ردعمل ہوتا ہے جس کا اظہار ڈالر کی قیمت میں کمی کی صورت میں واقع ہوتا ہے جو کہ ہو چکا ہے۔تاہم اب کی بار ڈالر کا بہت نچلی سطح پر چلے جانا ممکن دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے معاشی اشاریے ایسے نہیں کہ فی الحال ڈالر کی قیمت کو نیچے لایا جا سکے۔
فی الحال ڈالر کی قیمت موجودہ سطح پر ایک دو روپے اوپر نیچے کے ساتھ برقرار رہنے کی توقع ہے۔ ڈالر کا بہت نچلی سطح پر جانا پاکستان کے برآمدی شعبے کے لیے بھی بہتر نہیں جو پہلے ہی عالمی منڈی میں مسابقتی دوڑ میں پیچھے ہے۔ اس وقت اگر ملک کے معاشی اور مالیاتی اشاریوں کو لیا جائے تو ڈالر کی قیمت 160 تک ہونی چاہیے اور یہ اس سطح پر بھی آ سکتا ہے اگر آئی ایم ایف کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کی شرائط نہ ہوں۔ ان تمام حقائق سے قطع نظر عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا ضروری ہے ورنہ عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا جو کہ موجودہ اتحادی حکومت کے لیے انتہائی خوفناک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button