ColumnImtiaz Aasi

افغانستان،ماضی، حال اورمستقبل ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
ایک دور تھا جب افغانستان کو ایشیا کا پیرس کہا جاتاتھا۔ افغانستان میںاس وقت سردار دائود کی حکومت تھی امریکہ اور برطانیہ سے طلبہ اور طالبات حصول تعلیم کے لیے کابل کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا کرتے تھے۔طالبان کی حکومت آنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹرز اور پروفیسروں کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں منتقل ہوچکی ہے ۔طالبان نے افغانستان کی یونیورسٹیوں سے وائس چانسلروں کو ہٹا کر علماء کرام کو وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے۔سردار دائود کے بعد افغانستان پر جس نے بھی حکمرانی کی وہ ڈاکٹر نجیب کا دور تھا۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان باشندوں کی بڑی تعداد تاجکستان اور ازبکستان نقل مکانی کر چکی ہے، جہاں انہیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں رکھنے کے لیے عالمی دبائو کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان نے مزید افغان پناہ گزنیوں کی میزبانی کرنے سے معذرت کر لی تھی اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا موقف تھا کہ پاکستان پہلے ہی لاکھوں افغان پناہ گزنیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔
طالبان حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے جو کام کیا، بڑے بڑے محلات میں رہنے والے کرپٹ اور جہادی تنظیموں کے سرکردہ افراد کو گرفت میں لے کر ان کے محلات سے ہیلی کاپٹرز، ٹینکوں سمیت ان کے بینک  اکاونٹس کو منجمد کیاجس کے بعد ان تمام لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہوسکیں۔ افغانستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب طالبان نے صوبہ پنج شیر کا پوری طرح کنٹرول سنبھال لیا ہے وگرنہ افغانستان کی کوئی حکومت احمد شاہ محسود کے صوبہ پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔
یہ اور بات ہے کہ احمد شاہ محسود کے بیٹے نے
پنج شیر پر کنٹرول کرنے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جسے طالبان نے ناکام بنا دیا ۔طالبان سے پہلے افغانستان کی کوئی حکومت صوبہ پنج شیر کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد جو سب سے پہلا وعدہ کیا وہ عام معافی کا تھا۔مگر وعدے کے باوجود افغان فوج اور پولیس کے لگ بھگ بارہ سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس وقت افغانستان میں طالبات کی تعلیم پر مکمل پابندی ہے۔خواتین کو سرکاری دفاتر میں ملازمت کرنے پر بھی پابندی ہے۔طالبات کے سکول اور کالجز بند ہیں۔ افغانستان کے قومی پرچم کو
برقرار رکھنے کے لیے عوام مظاہرے کر رہے ہیں ان کا موقف ہے افغانستان کا قومی پرچم درحقیقت ملک کی پہچان ہے لیکن طالبان حکومت قومی پرچم تبدیل کرنے پر بضد ہے۔
افغانستان کے رہنے والوں پر اس سے برا وقت کبھی نہیں آیا ہوگاوہاں کے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں وہ کھانے پینے کی اشیاء کے حصول کی خاطر اپنے گھریلو سامان کے علاوہ بچوں کو فروخت کرکے ضروریات زندگی پوری کرنے پر مجبور ہیں۔افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی اقتدار سے رخصت ہونے کی کڑیاں ملتی ہیں۔ اشرف غنی امریکی افواج کی واپسی کا متمنی تھا۔ہماری معلومات کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرح اشرف غنی امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا تھا۔ افغانستان سے اشرف غنی کی نقل مکانی دراصل افغانستان میں خون ریزی سے بچنا تھا۔ اشرف غنی افغانستان سے منتقل نہ ہوتا ،اس بات کا قومی امکان تھا وہاں شدید خون ریزی کے امکانات تھے۔
عام طورپر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے۔دراصل افغانستان ایشیا اور پورپ کے درمیان مختصر ترین راستہ ہے جس روز افغانستا ن اور پاکستان میں پوری
طرح امن قائم ہو گیا اس روز عرب شیوخ کے محلات اور مغرب کے سرمایہ داروں کا زمین بوس ہونا یقینی بات ہے۔ سی پیک جسے امریکہ ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش میں ہے۔اس مقصد کے لیے سرمایہ تو عربوں کا ہے اور فوجی امریکہ کے ہیں۔ان حالات میں جیسا کہ پاکستان کا امریکیوں کو اڈے دینے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو کسی صورت میں امریکہ کو ایئربیس نہیں دینے چاہئیں۔افغانستان میں حالات کو پرامن لانے کے لیے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ تاکہ افغانستان ایک پر امن جمہوری ملکوں کی فہرست میں شامل ہو سکے
۔ان حالات میں طالبان حکومت کو افغان عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فوری انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنا چاہیے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو بلاتفریق حصہ لینے کی اجازت ہو۔طالبات کی تعلیم پر پابندی ہٹائی جائے تاکہ خواتین بھی سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں ملازمت کر سکیں۔اس وقت افغانستان میں زیادہ تر تعداد میں بیوہ اوربچے ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ۔اس لیے وہاں کی خواتین کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔ افغانستان کے قومی پرچم کے بارے میں طالبان حکومت کو اپنے موقف میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اورجھنڈے کو تبدیل کرنے کی ضد سے باز آجانا چاہیے۔ افغانستان کے قومی پرچم پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے لہٰذا اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ طالبان کو افغانستان میں قیام امن کے حصول کے لیے پاکستان کے ساتھ بہت قریبی اور برادرانہ رکھنے چاہئیں اس سلسلے میں ماضی کی تمام لغرشوں کو بھلا کر ایک پرامن افغانستا ن اور پاکستان کے لیے سر توڑ کوشش کرنی چاہیے۔اس وقت افغانستان کو سخت انسانی بحران کا سامنا ہے۔
افغانستان کی معیشت کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں۔ افغانستان کو اس وقت تیزی سے بدلتی غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے ۔سکیورٹی کی صورت حال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے جس میں پورا افغانستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔یو این ڈی پی کی رپورٹ کی روشنی میں 97 فیصد لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو قیام پاکستان سے اب تک دونوں ملکوں کے تعلقات میں تنائورہا ہے۔جب پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا توافغانستان واحد ملک تھا جس نے یو این میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ افغانستان بارڈر کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں لہٰذا طالبان حکومت قیام امن کے لیے مخلص ہے تو اسے افغانستان کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو روکنا ہوگا وگرنہ یہاں کے لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی پڑوسی ملک کے رضامند ی ہو رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button