Ahmad NaveedColumn

ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ ….. احمد نوید

احمد نوید
پاکستان کی گزشتہ ایک ماہ کی ہنگامہ خیز سیاست اور سیاسی واقعات نے پاکستانیوں کا سر چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اس ایک ماہ میں پاکستانی عوام نے سیاست اور اخلاقیات کے جنازے اُٹھتے دیکھے ہیں ۔ یہ سارا کھیل تحریک عدم اعتماد سے شروع ہوا تھا اور اب حکومت کے تبدیل ہوجانے کے بعد تک بھی رُکنے کا نام نہیں لے رہا ۔
عمران خان پھر سڑکوں پر ہیں ۔ شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر پی ٹی آئی اشاروں کنایوں میں ایک ذمہ دار ادارے اور کسی حد تک ایک ذمہ دار شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ کل کی اپوزیشن جو کسی حد تک کل یہی کام سر انجام دے رہی تھی ، آج اُن کا تحفظ کر رہی ہے ۔
گزشتہ ایک ماہ میں بہت کچھ بدل گیا اور غالباً اگلا الیکشن آنے تک پاکستانی عوام کو جانے اور کتنی تبدیلیاں دیکھنا ہوں گی۔تاہم اس تمام سیاسی عمل میں ہم پاکستانی اپنے اخلاقیات کو تہس نہس کر چکے ہونگے۔ جی ہاں آج مجھے گلہ اپنے ملک کے سیاستدانوں سے کہیں زیادہ اپنی پاکستانی عوام سے ہے ۔ ہم پاکستانی جو کسی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی رہنما سے محبت اور وابستگی رکھتے ہوں۔ وہ اس قدر شدید اور جنون کی حد تک ہے کہ ہم کسی دوسری سیاسی پارٹی یا اُس کے قائد کی کسی بھی اچھی بات یا عمل کو سراہنے کے لیے  تیار نہیں ۔ سیاسی اختلافات سیاسی عمل کا حصہ ہوتے ہیں مگر آج ہم پاکستانی اس سیاسی اختلافات میں سیاسی اخلاقیات کو فراموش کر چکے ہیں ۔
چور، ڈاکو ، لٹیرے ، کرپٹ ، منافق ، غدار ، احسان فراموش ، آج ہم پاکستانی سیاسی وابستگیوں اور اپنے سیاسی عقائد کے ہاتھوں مجبور ہو کر مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے  ہر طرح کا لقب دینے کے لیے  تیار ہیں۔کاش میرے پاکستانی بھائی اور بہنیں یہ جاننے کی صلاحیت رکھتے کہ سیاسی پارٹیاں اور سیاسی قائدین اپنے سیاسی فائدے کے لیے  عوام کو تقسیم کرتے ہیں ۔ آج ہمارے پاکستانی بہن بھائیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ اگر آج ہمارا سیاسی ہیرو سیاسی ضروریات کے پیش نظر اخلاقی مجبوریوں کا شکار ہوتا ہے ۔ اپنے اصولوں سے پھرتا ہے تو خدا را اگر اُس کی پرستش نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم دوسروں کو تو اُسے سجدہ کرنے پر مت مجبور کریں۔
آج رہی سہی کسر سوشل میڈیا پوری کررہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگ اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں اور اپنے پسندیدہ سیاسی قائدین کے حق میں ایسے نظریات پیش کرتے ہیں ، جن سے صرف یہ مفہوم نکلتا ہے کہ تمام مخالف سیاسی جماعتیں اور اُن کے قائدین جھوٹے ، فریبی ، دغا باز، لالچی ، مکار ، بدعنوان ، کرپٹ ، غدار ، مکار حتیٰ کہ اسلام سے بھی منکر ہیں ۔
ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں سوچنا ہوگا ۔ عین ممکن ہے کہ سیاستدان ہمارے ملک کو اتنا نقصان نہ پہنچا سکیں، جتنا پاکستانی عوام خود اِسے تباہ کر کے پہنچا دے گی۔
سیاست کے اس سارے کھیل میں عدم برداشت آنے سے جتنی تباہی گزشتہ چند سالوں میں ہوئی ہے ۔ اتنا نقصان گزشتہ 75سالوں میں بھی پاکستان کو نہیں پہنچا ۔ عزیز رشتے دار ، دوست احباب آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ سیل فون اٹھائیں تو وہ گالی گلوچ ، ایک دوسرے کے خلاف نعروں پر مشتمل پوسٹوں سے بھرا کوڑا دان لگتا ہے ۔خدارا ہوش کے ناخن لیں ، کیا صرف سیاست ہی ہماری زندگیوں میں رہ گئی ہے ۔ ہر وقت سیاسی تکرار ، بحث و مباحثے ، جن میں ایک فریق دوسرے کو فاتح کرنا چاہتا ہے ۔ ایک سیاسی پارٹی کا ورکر دوسرے سیاسی کارکن پر غالب آنے کی کوشش میں جُتا ہوا ہے ۔ گھر ، گلی ، سڑک ، دکانیں ، چوراہے ، تھڑے کوچے جہاں چار افراد موجود ہیں ، وہاں اپنی من پسند سیاسی پارٹیوں کے حق میں تبلیغ کی جارہی ہے ۔
گویا ہر مخالف دائرہ اسلام اور حلقہ ایمان سے باہر ہے ۔ اُسے اپنی پسند کی پارٹی میں لانا ضروری ہے ۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اس روئیے نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ یہ سوچ اور تصور صرف مجھ اکیلے کے ذہن سے نہیں پھوٹ رہا۔گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان کے ایک ادب پرور دوست اسلم خان کی کال آئی ۔وہ بہت افسردہ اور رنجیدہ تھے۔ اُن سے ہونے والے مکالمے میں ، میں نے خود کو بے بس اور مجبور محسوس کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم سب مبارک باد کے حق دار ہیں کہ ہم نے مذہبی فرقوں کے بعد پاکستان میں سیاسی فرقوں کو بھی جنم دے دیا ہے۔ آج تمام پاکستانی ان سیاسی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور آپ نے بھی ان سیاسی فرقوں کو بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ میں اسلم خان کی گفتگو خاموشی سے سنتا رہا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے تعجب ہوا کہ میرا ان سیاسی فرقوں کو پروان چڑھانے میں کیا کردار ہے ، تو اسلم خان کے اس جملے سے مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا۔ احمد صاحب معذرت کے ساتھ اِن سیاسی فرقوں کو بنانے اور اِن کے خیالات کو پھیلانے میں تمام میڈیا چینلز ، اخبارات ، یو ٹیوبز، کالم نگار، سوشل میڈیا کے کرتا دھرتا، ٹاک شوز کے اینکر پرسنز بھی شامل ہیں ۔ جو اپنے من پسند سیاسی قائدین او ر اُن کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو نہ صرف جادوئی اور کرشماتی بلکہ عوام کے لیے نجات دہندہ اور مسیحا بنا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ لائن بہت واضح ہے ۔ آدھے لائن کے اُس طرف ہیں ، آدھے اس طرف ۔درمیان میں کوئی نہیں !یہ وابستگی مجھے اور مجھ جیسے ہر باشعور پاکستانی کو منظور نہیں ۔ اسلم خان کی کال ختم ہونے پر میں بہت دیرسوچتا رہا۔ مجھے پہلی بار شرمندگی ہوئی کہ واقعی میں بھی لائن کے اس طرف ہوں یا اُس طرف ، درمیان میں ہر گز نہیں ۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
اگر ہم جیسے نام نہاد تعلیم یافتہ لوگ بھی منزل کا تعین کئے  بغیر آگے بڑھتے رہے ، تو ہمارا ، اس ملک کا ، عوام کا مستقبل کیا ہو گا۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button