Editorial

نئی کابینہ اور پرانے چیلنجز

وزیراعظم شہبازشریف کی 37رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیاہے۔ کابینہ میں31وزرا، 3وزرائے مملکت اور3مشیرشامل ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق راناثنااللہ کو وزیر داخلہ، مریم اورنگزیب کو وزیراطلاعات،مفتاح اسماعیل کووزیرخزانہ، اعظم نذیرتارڑکو وزیرقانون، احسن اقبال کو منصوبہ بندی،سردار ایازصادق کو وزیراقتصادی امور، رانا تنویرکو وزیرتعلیم، خواجہ آصف کودفاع،سید خورشیدشاہ کوآبی وسائل، نوید قمرکوتجارت، عبدالقادرپٹیل کو ہیلتھ ریگولیشن،شازیہ مری کو تخفیف غربت اور سماجی تحفظ،شیری رحمٰن کوموسمیاتی تبدیلی،خواجہ سعدرفیق کو ریلوے اورہوابازی، شاہ زین بگٹی کو انسداد منشیات، امین الحق کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، فیصل سبزواری کو بحری امور،طلحہ محمود کو سفیران، مفتی عبدالشکور کو مذہبی امور ، مولانا عبدالواسع کو ہائوسنگ، مولانا اسعد محمودکو مواصلات اورطارق بشیرچیمہ کوفوڈسکیورٹی کا قلمدان سونپاگیاہے ۔ مرتضیٰ جاویدپارلیمانی امور،مرتضیٰ محمود صنعت، ساجد طور اوورسیز پاکستانی، عباد حسین بھائیو نجکاری، احسان الحق مزاری کووزیر بین الصوبائی روابط، اسرار ترین کو دفاعی پیداوار،حناربانی کھر کو وزیرمملکت برائے خارجہ ،عائشہ غوث پاشا کو وزیر مملکت برائے خزانہ وریونیو جبکہ قمرزمان کائرہ وزیراعظم کے مشیربرائے امورکشمیراور گلگت بلتستان اور عون چودھری بھی وزیراعظم کے مشیرہوں گے۔ابتدائی طورپربلاول بھٹو اور شاہد خاقان عباسی کابینہ کا حصہ نہیں بنے۔
کابینہ میں جہاں تجربہ کار سیاسی شخصیات کو شامل کیاگیا ہے وہیں بعض نئے چہرے بھی شامل کیے گئے ہیں جنہیں پہلی بار وزارت کے امور دیکھنے کا تجربہ حاصل ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے لیے اِس وقت دو ہی بڑے چیلنجز ہیں ایک سیاسی اور ایک معاشی۔ وزیراعظم شہبازشریف چونکہ سیاست اور معیشت کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور انہوں نے خصوصاً معیشت کے حوالے سے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے، توقع کی جانی چاہیے کہ یہ تجربہ کار شخصیات معاشی مشکلات کا بخوبی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گی ۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل گذشتہ رات واشنگٹن روانہ ہوئے ۔ مفتاح اسماعیل واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اسپرنگ میٹنگز میں شرکت کریں گے اور آئی ایم ایف کے ساتویں جائزے سے متعلق مذاکرات کریں گے جس کے بعد پاکستان کے لیے ایک  ارب ڈالر کی قسط جاری ہونے کا امکان ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر پہلے سے واشنگٹن میں ہیں، جبکہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ سیکریٹری خزانہ بھی اس وقت واشنگٹن پہنچ چکے ہوں گے۔ بلاشبہ نئی حکومت کو غربت، بے روزگاری اور افراطِ زر جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ ماضی میں ہماری ہر حکومت ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتی آئی ہے لیکن یہ مسائل ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔
موجودہ حکومتی اتحاد چونکہ سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتا رہا ہے اِس لیے سب سے زیادہ دبائو نئی معاشی ٹیم پر ہوگا کہ وہ کم عرصے میں عوام کو کتنا زیادہ ڈیلیور کرتی ہے، یہ معاشی ٹیم اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت کی نمائندہ نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی متفقہ اور نمائندہ ٹیم ہے اِس لیے بھی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ وریونیو عائشہ غوث پاشا پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک و قوم کو معاشی مسائل سے کیسے
نجات دلاتے ہیں کیوں کہ ایک طرف ملک پر قرضوں کا پہاڑ ہے تو دوسری طرف وہ مسائل جن سے ہر سفید پوش پاکستانی نبرد آزما ہے، لوگوں کوروزگار کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، لوگ روزگار کے لیے پریشان ہیں، دکان دار ہو یا صنعت کار کوئی بھی معاشی حالات سے مطمئن نہیں ہے۔
مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، سابقہ حکومت بھی مہنگائی پر قابو نہ پانے کو اپنی ناکامی سے تعبیر کرتی رہی اب بھی اگر عملاً مہنگائی قابو نہ ہوئی اور عام پاکستانی کے حالات بدستور گراوٹ کا شکار رہے تو موجودہ حکومت بلکہ سیاسی اتحاد کو اِس کا نقصان پہنچے گا کیوں کہ سابقہ حکومت کے خلاف یہی موثر ہتھیار تھا جو استعمال کرکے رائے عامہ ہموار کی گئی۔ اس لیے اب خود بھی نئی حکومت کو اِس چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے لیکن کابینہ میں شامل سنیئر وزرا کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام مسائل جن سے نمٹنے میں پی ٹی آئی حکومت ناکام رہی ، موجودہ ٹیم اپنے تجربے کی بنیاد پر اُن مسائل سے نمٹنے میں یقیناً کامیاب ہوگی۔
رانا ثنااللہ پہلے بھی پنجاب میں کئی اہم وزارتوں کے قلمدان سنبھال چکے ہیں انہیں اِس بار وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ اہم وزارت اُن کے لیے قطعی چیلنج ثابت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف کی کابینہ میں شامل تمام سنیئر وزرا یقیناً اپنے تجربات سے قوم کو ڈیلیور کرنے کی کوشش کریں گے ۔ دوسری اہم بات کہ نئی حکومت کو معیشت کے ساتھ ساتھ چونکہ سیاسی مسائل کا بھی سامنا ہے اِس لیے یہ معاملہ سراسر وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے اپنے دیکھنے والا ہوگا کیوں کہ وہ جس اہم منصب پر ہیں ان کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا ،ان کے تحفظات دور کرنا بھی ہمہ وقت کا ایک مکمل کام ہوگا اور یقیناً ہے۔ ایک طرف وزرا کے لیے یہ سخت امتحان ہوگا تو دوسری طرف وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے لیے بھی۔
حالیہ دنوں میں حکومتی وسیع اتحاد پر تعریف اور تنقید بھی کی جا رہی تھی، سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اتحاد زیادہ دیر تک چل سکے گا نہ ہی عوام کو ڈیلیور کرپائے گا اِس دعوے کو غلط کرنا بھی اتحاد میں شامل سبھی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کیوں کہ اتحادیوں میں اختلافات سامنے آئے تو ان اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی اِس لیے سبھی کو کم ازکم موجودہ دور حکومت میں ایسے رہنا ہوگا جیسے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے سبھی میں اتفاق تھا۔ اِس وقت سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان رابطہ عوام مہم شروع کرچکے ہیں آج وہ لاہور میں بڑے جلسے عام سے خطاب کریں گے، اُن کی سیاسی سرگرمیاں بھی صرف نظر نہیں کی جانی چاہئیں کہ وہ پوری سیاسی طاقت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آنا چاہیں گے ،
پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد میں شامل کئی جماعتیں فوری عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں اور رائے عامہ بھی ایسی ہی محسوس ہوتی ہے تاکہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو کیوں کہ بظاہر اِس وقت سیاسی حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے۔ پنجاب میں ابھی تک وزیر اعلیٰ کا معاملہ لٹکا ہوا ہے، سردار عثمان بزدار کے استعفے کے معاملے پر نئی بحث چھڑچکی ہے ، پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب اور حلف سب کچھ سیاسی دائو پیچ کی وجہ سے جہاں تھا وہیں رکا ہوا ہے۔ اتحادی جماعتوں کی حکومت کے لیے چیلنجز کے بعد بھی چیلنجز ہی نظر آرہے ہیں اِس لیے فہم و فراست اور کشادہ دلی کے ساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی ، فی الحال سیاسی بیان بازی کی بجائے کچھ کرکے دکھایا جائے گا تبھی عوام مطمئن ہوں گے وگرنہ بے یقینی کی فضا بدستور برقرار رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button