Editorial

دہشت گردوں کا مقدر، عبرت ناک انجام

پاکستان میں امن کی دیوی 15سال کے طویل عرصے تک روٹھی رہی، 2001ء سے لے کر 2015ء تک دہشت گردی کے حوالے سے ملکی فضا انتہائی مکدر رہی۔ عوام شدید خوف و ہراس کا شکار رہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ہولناک صورت حال کے باعث معیشت کو بُری طرح زک پہنچی۔ سرمایہ کاروں نے یہاں سے اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرون ممالک کا رُخ کیا۔ اس دوران 80ہزار بے گناہ شہری شرپسندوں کے ہاتھوں بم دھماکوں، خودکُش حملوں، فائرنگ اور دیگر تخریبی واقعات کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور اہلکار بھی شامل تھے۔ دہشت گردوں کے خلاف سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد فیصلہ کُن آپریشنز (ضرب عضب اور ردُالفساد) شروع کیے گئے، جن کے نتیجے میں جلد ہی ملک سے دہشت گردوں کا صفایا ہوگیا، متعدد شرپسندوں کو جہنم واصل اور گرفتار کیا گیا، ان کی کمین گاہوں کو تباہ کردیا گیا، ان کے سہولت کاروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، شرپسندوں کی کمر توڑ دی گئی، بچ جانے والے دہشت گرد یہاں سے فرار ہوگئے۔ 7 سال تک  امن و امان کے حوالے سے صورت حال بہتر رہی، لیکن پچھلے ڈیڑھ دو سال سے پھر دہشت گردی کا عفریت تباہ کاریاں مچاتا نظر آرہا ہے، سیکیورٹی فورسز کے اہلکار مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے ہورہے، قافلوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، سیکیورٹی فورسز کے کئی جوان اور افسران ان واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ بڑھتی دہشت گردی کے سدباب کے لیے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں نصیب ہورہی ہیں، متعدد دہشت گردوں کو جہنم واصل اور گرفتار کیا جاچکا ہے، متعدد علاقوں کو کلیئر کرایا جاچکا اور سینی ٹائزیشن آپریشن اب بھی ہورہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے پُرعزم دِکھائی دیتی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز امن و امان کی فضا مکمل طور پر بحال ہونے تک جاری رہیں گے، لیکن اس دوران پے درپے دہشت گردی کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کی فضا کو تباہ کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز بھی دہشت گردی کے واقعات میں چار پولیس اور سی ٹی ڈی افسر و اہلکار شہید ہوئے جب کہ مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کامیاب آپریشنز کیے گئے، جن میں 12دہشت گردوں کو مارا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ڈی آئی خان، پنجگور اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دوران  12دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جب کہ خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع میں ڈی ایس پی، اے ایس آئی سمیت چار پولیس و سی ٹی ڈی اہلکار شہید ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ڈی آئی خان اور پنجگور میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا، جس کے دوران ڈی آئی خان میں 8جب کہ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں 2دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ 5 اپریل کو سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا۔ اس دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں 8دہشت گرد مارے گئے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق مارے گئے دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں اور معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں سرگرم رہے۔ ہلاک دہشت گردوں سے اسلحہ، گولا بارود اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کو علاقے کے عوام نے سراہا ہے جب کہ علاقے میں پائے جانے والے دیگر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے سینی ٹائزیشن آپریشن کیا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بعدازاں خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی گل محمد خان اور گن مین شہید جب کہ باجوڑ میں ریموٹ کنٹرول دھماکے کے نتیجے میں اے ایس آئی شہید ہوگیا۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم افراد کے پولیس موبائل پر حملے میں سی ٹی ڈی اہلکار ظہور شہید ہوا۔ اُدھر پنجگور میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں دو دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ڈی آئی خان، پنجگور اور شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیاں اور ان میں 12دہشت گردوں کی ہلاکت ثابت کرتی ہیں کہ سیکیورٹی فورسز جلد ہی ملک سے دہشت گردوں کے ناپاک وجود کا مکمل خاتمہ کردیں گی۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹ کر دُنیا کو حیران ہونے پر مجبور کرچکا ہے اور آئندہ بھی جلد اس مقصد کو پانے میں سرخرو رہے گا۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اُتارا اور گرفتار کیا جارہا ہے۔ علاقوں کو ان کے ناپاک وجودوں سے پاک کیا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی جلد مقدر بنے گی۔ تمام دہشت گرد کا مقدر عبرت ناک انجام ہے۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم دِکھائی دیتی اور اس حوالے سے مصروفِ عمل ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں دہشت گردی کا جن بوتل میں بند ہوجائے گا اور ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوجائے گی۔ دوسری جانب 4سی ٹی ڈی اور پولیس افسر و اہلکاروں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ وہ اور اُن کے لواحقین ہر لحاظ سے قوم کے لیے لائقِ عزت و احترام ہیں۔ عوام اُن کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ارض پاک کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اس پر مر مٹنے والے سپوت وافر تعداد میں میسر ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کا ہر افسر اور سپاہی ملک کے ذرّے ذرّے کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ دشمن چاہے جتنی کوششیں کر لے، وطن عزیز کے بہادر بیٹے اُسے اُس کے مذموم مقاصد کو کسی طور کامیاب نہیں ہونے دے سکتے۔ وطن کے لیے قربان ہوجانے والے سپوتوں کو قوم قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔  پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔

کھاد کمپنیوں کی ہوشربا منافع خوری

پاکستان زرعی ملک ہے اور ملک کی کُل مجموعی آمدن میں زراعت کا شعبہ 20فیصد جتنا عظیم حصّہ ڈالتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں کسان غذائی اور دیگر ضروریات کی پیداوار کے لیے شب و روز مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ہر سال اچھی فصل کے حصول کے خواب دیکھتے اور اس کے لیے اپنی تمام تر جمع پونجی خرچ کرکے فصلوں کو لگاتے، اس دوران مہنگی زرعی ادویہ، کھاد، بیج اور دیگر سامان خرید کر اپنے خواب کی تکمیل کی جانب قدم بڑھاتے ہیں، پابندی اور ذمے داری کے ساتھ فصلوں کی آب یاری کرتے، شب و روز اُن کی دیکھ بھال میں جُتے رہتے ہیں، لیکن جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو اُن کے لگائے سرمائے اور محنت کا جائز پھل اُنہیں نہیں مل پاتا۔ اُن کی محنتوں اور ریاضتوں کے ثمرات کوئی اور ہی پارہے ہوتے ہیں۔ پچھلے مہینوں ملک میں کھاد کا بدترین بحران تھا۔ بلیک مارکیٹنگ کی اطلاعات متواتر سامنے آرہی تھیں۔ اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز ہوا تو کھاد کے حوالے سے صورت حال کے بہتر ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ کسانوں کو حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی دی جارہی تھی۔ کھاد سستی ہوئی اور کسی حد تک اس کی بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ تھما۔ توقع کی جارہی تھی کہ کسان حکومتی سبسڈی کے طفیل سستی کھاد خرید رہے ہوں گے، لیکن اب کھاد ساز کمپنیوں کی جانب سے غریب کاشت کاروں کے بدترین استحصال کا انکشاف ہوا ہے۔ اُن کی ناجائز منافع خوری بے نقاب ہوئی ہے اور اُن کا مکروہ چہرہ کُھل کر سامنے آگیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے ناجائز منافع خوری کا انکشاف ہوا ہے۔ حکومتی سبسڈی کا مقصد کسانوں کو سستی کھاد فراہم کرنا تھا، تاہم کمپنیوں نے کھاد سستی کرنے کے بجائے مہنگی فروخت کی اور 46فیصد تک منافع کماتی رہیں۔ کمپنیاں کسانوں کو سبسڈی سے محروم کرکے ہوش رُبا منافع کماتی رہیں، جس پر کھاد کارخانوں کے مالکان سے پرائس فکسنگ پر وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔ غیر قانونی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) یوریا کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کر چکا اور جرم ثابت ہونے پر کم از کم ساڑھے 7کروڑ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ جرمانے کی زیادہ سے زیادہ حد سالانہ ٹرن اوور کا 10 فیصد ہے، مسابقتی کمیشن کا ٹریبونل کیس کی سماعت کے بعد آرڈر جاری کرے گا۔ حکام کے مطابق 2013 میں بھی مختلف کھاد کمپنیوں کو 8ارب جرمانہ ہوچکا ہے۔ کھاد کمپنیوں کو سالانہ 152ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ یہ اطلاع غریب کسانوں کے ساتھ بڑے ظلم کے مترادف ہے۔ اُن کو سبسڈی سے محروم کرنا کھاد کمپنیوں کا بڑا جرم ٹھہرتا ہے۔ کھاد سازوں سے وضاحت طلبی درست اقدام ہے۔ سی سی پی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کرنا بھی احسن امر ہے۔ ضروری ہے کہ مہنگی کھاد بیچنے والی کمپنیوں کو کسی طور نہ بخشا جائے۔ ان پر بھاری بھر کم جرمانے عائد کیے جائیں اور ایسے بندوبست کیے جائیں کہ آئندہ یہ غریب کسانوں کا ذرا بھی استحصال نہ کر سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button