Editorial

پٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ

وطن عزیز کے غریب عوام کی زندگی کسی طور سہل نہیں، مشکلات ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہیں، بلکہ بڑھتی چلی جارہی ہے، ہر کچھ روز بعد ان پر کوئی نہ کوئی گرانی کا بم بڑی بے دردی کے ساتھ گرادیا جاتا ہے، گزشتہ روز بھی اُن پر ایک بار پھر پٹرول بم گرا کر اُن کی مشکلات بڑھادی گئی ہیں۔ مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے بُری خبر، حکومت نے پٹرول کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا جب کہ ڈیزل کی قیمت کم کردی گئی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 9 روپے 66 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 279 روپے 75 پیسے سے بڑھ کر 289 روپے 41 پیسے ہوگئی۔ دوسری جانب ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے 32 پیسے کی کمی کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 285 روپے 56 پیسے سے کم ہوکر 282 روپے 24 پیسے ہوگئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی نئی مقرر کردہ قیمتوں کا اطلاق گزشتہ رات 12بجے سے ہوچکا۔ پٹرول کی قیمت میں اتنی زیادہ بڑھوتری کسی طور مناسب نہیں ٹھہرائی جاسکتی، اسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ غریب عوام پہلے ہی مہنگائی کے عفریت سے بُری طرح پریشان ہیں، اُن کی صورت حال قابلِ رحم ہے، جہاں اشیاء ضروریہ کے دام آسمانوں پر پہنچے ہوئے ہیں، وہیں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں۔ پٹرول کی قیمت بڑھانے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ حالیہ بڑھوتری پٹرول کی قیمت میں مسلسل چوتھی بار اضافہ ہے۔ گو ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے، پاکستانی روپیہ اس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے نہ سہی مگر مستحکم اور مضبوط ضرور حاصل کررہا ہے۔ مانا کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں تیل قیمتوں میں بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر منتقل کردیا جائے۔ ہمیشہ یہی کیا جاتا ہے۔ حکومت پر جب کوئی بار آتا ہے تو وہ بنا سوچے سمجھے وہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر لاد دیتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کب عوام کے دلدر دُور ہوں گے۔ اُن کے لیے تو پچھلے 5، 6سال ڈرائونے خواب کی سی حیثیت رکھتے ہیں، جس میں اُن سے صرف چھینا ہی گیا ہے۔ اُنہیں حکومتی سطح پر لوٹانے کی نظیر بہ مشکل تمام ہی دِکھائی دے گی۔ 2018سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو عوام پر ہوئے ظلم و ستم کی داستانوں کی طویل فہرست نظر آئے گی۔ 2018میں برسراقتدار آنے والوں سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں، کچھ ہی ماہ بعد عوام کے تمام ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ یہ حکومت پیش روئوں سے بالکل مختلف ثابت ہوئی، جس کے دور میں بیانیوں پر اکتفا کیا گیا اور عملی اقدامات کی سطح پر خاموشی کا دور دورہ رہا۔ بڑے بڑے بیانات سننے میں آتے تھے کہ اب حقیقی تبدیلی آئے گی، عوام کے دن بدل جائیں گے اور وہ ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے فیض یاب ہوں گے۔ یہ باتیں محض دعوے ہی ثابت ہوئیں۔ اُلٹا غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا، ہر آنے والا دن اُن کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتا رہا۔ معیشت کو نامعلوم کس فارمولے کے تحت چلایا گیا کہ اُس کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ گو کرونا وائرس کے بھی کچھ اثرات ضرور ظاہر ہوئے، لیکن قدرت کے فضل و کرم سے وطن عزیز اس عالمی وبا کے اُن تباہ کُن اثرات سے محفوظ رہا، جو دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر نہ سہی، یہاں کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں۔ ناقص اقدامات کے باعث پاکستانی روپیہ تاریخی بے وقعتی اور بے توقیری سے دوچار ہوا، گویا اُسے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا، ڈالر اُسے چاروں شانے چت کرتا رہا، یوں مہنگائی کے ہولناک نشتر قوم پر برستے رہے، غریب جس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، متوسط طبقہ غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ کاروبار دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے باعث بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ بہت سے بڑے بڑے اداروں کو اپنے کاروبار محدود کرنے پڑے، جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ لوگوں کے برسہا برس سے جمے چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار سست کردی گئی یا اسے بالکل روک دیا گیا۔ اسی طرح ملک کی اوّلین 70 سالہ تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے، جتنے چار سالہ دور میں بیرونی اداروں سے حاصل کیے گئے۔ حالات اس حد تک سنگین ہوچکے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر آپہنچا۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے پہلے راست اقدامات یقینی بناتے ہوئے اس خطرے کو ٹالا۔ پھر نگراں حکومت نے احسن اقدامات یقینی بنائے، جس سے پاکستانی روپے کے استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی کمی ممکن ہوسکی۔ اشیاء ضروریہ کے داموں میں زیادہ نہ سہی، کچھ کمی ضرور واقع ہوئی۔ یہ سب ڈالر، سونا، چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے مسلسل کریک ڈائون کے نتیجے میں ممکن ہوا جب کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بھی مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ لاکھوں غیر قانونی پناہ گزین اپنے ممالک کو واپس جاچکے ہیں۔ معیشت اور وسائل پر ان کے جانے سے بوجھ میں کمی آئی ہے۔ اب بھی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، اسے اس ناپسندیدہ مشق کے خاتمے تک جاری و ساری رہنا چاہیے۔ بہرحال پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ بنے گا۔ اشیاء ضروریہ کے دام بڑھیں گے، جس سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ مانا وفاقی حکومت کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ اُسے ملک و قوم کو لاحق مشکلات کے حل کے لیے راست اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔ سب سے پہلے مہنگائی کو دعوت دینے والے اقدامات سے گریز کی پالیسی اختیار کی جائے۔ شفافیت پر مبنی اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کی جائیں۔ ضروری ہے کہ ڈالر کے نرخ پُرانی سطح پر واپس لائے جائیں۔ مہنگائی کی شرح میں بڑی کمی یقینی بنائی جائے۔ زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ غریبوں کی اشک شوئی کا لازمی بندوبست کیا جائے۔ قرضوں کے بجائے ملکی وسائل سے مسائل کو حل کیا جائے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ملک عزیز وسائل سے مالا مال ہے۔ بس انہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی کیخلاف بڑی کامیابیاں
پاکستان میں پھر سے دہشت گردی کا چیلنج سنگین شکل اختیار کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان شرپسندوں کے خاص نشانے پر ہیں، ان کی جانب سے مسلسل کبھی سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے ہورہے ہیں تو کبھی سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کونشانہ بنایا جارہا ہے، کبھی ان کی تنصیبات پر حملے کیے جارہے ہیں، ان مذموم کارروائیوں میں کئی جوان اور افسر شہید ہوچکے ہیں، یہ تمام شہدا اور ان کے لواحقین ہمارے لیے قابل عزت و احترام ہیں، قوم ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف آپریشنز جاری ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں، متعدد دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا، گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں اور خاصے علاقے ان کے ناپاک وجودوں سے پاک کیے جاچکے ہیں۔ اب بھی یہ آپریشنز تھمے نہیں ہیں بلکہ متواتر جاری ہیں۔ گزشتہ ماہ صرف خیبر پختون خوا میں ہی سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے دوران 52 شدّت پسندوں کو مارا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا میں رواں ماہ 5 اضلاع میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران 52 شدّت پسند ہلاک ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق رواں ماہ صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف 104 آپریشن کیے گئے۔ ماہانہ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان میں 10 کارروائیوں میں 35 دہشت گرد ہلاک جب کہ ڈی آئی خان اور لکی مروت میں 6، 6 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوہاٹ میں ایک کارروائی میں 3 اور باجوڑ میں 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں سے 15 راکٹ لانچر، 24 پستول، 19 ایس ایم جی، 3 مشین گن اور دیگر اسلحہ برآمد ہوا۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک ماہ کے دوران خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی کامیابیاں سمیٹیں۔ اس پر وہ تحسین کی مستحق ہیں۔ ان کارروائیوں کو دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جاری رہنا چاہیے۔ دہشت گردوں کی تمام کمین گاہوں کو تباہ و برباد کیا جائے۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے پھر سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم اور اس کے لیے تندہی سے مصروفِ عمل ہیں۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردی کا قلع قمع کرچکا ہے، اس بار بھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اس کے لیے چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز ملکی امن و امان کی خاطر جتی ہوئی ہیں، ان شاء اللہ یہ مقصد جلد پورا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button