Column

گیس اور بجلی کے بعد پٹرول بھی مہنگا ہو گیا

رفیع صحرائی
مرزا غالب نے سچ ہی کہا تھا کہ
رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ایک آدھ بار یا ایک آدھ دن کی بات ہو تو بندہ رنج کو رنج بھی سمجھے۔ یہاں تو قطار اندر قطار مصیبتوں کے ایسے پہاڑ تسلسل کے ساتھ گزشتہ 6سال سے کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ اپنے انسان ہونے پر شک ہونے لگا ہے۔ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ سخت سے سخت جان انسان بھی کبھی نہ کبھی ٹوٹ جاتا ہے۔ عام انسانوں کا ذکر ہی کیا۔ لیکن مصائب کے پہاڑ موجودہ دَور کے تمام ایاز جھیل رہے ہیں۔ محمود تو ان کی کولہو میں نچڑی ہوئی بے گور و کفن لاشوں پر رقص کر رہے ہیں جبکہ سہولت کار یہ سوچ رہے ہیں کہ ان نچڑی ہوئی لاشوں سے مزید خون کیسے نچوڑا جائے۔
حکومت نے ایک مرتبہ پھر عوام کی عید کی خوشیوں کو برباد کرنے کی شعوری کارروائی ڈال دی ہے۔ ایک مرتبہ پھر بلاوجہ ہی پٹرول کی قیمت میں قریباً دس روپے لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے اضافہ کرتے وقت بہانہ بنایا جاتا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہمارے ہاں قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔ اب اس جھوٹ کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ نگران حکومت کو عوام نے عذاب کی طرح بھگتا ہے۔ موجودہ دو تہائی اکثریت رکھنے والی اتحادی حکومت اس نگران حکومت کا تسلسل لگ رہی ہے۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہر حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ حکومتی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا سامان پورا کرنے کے لیے اس سے آسان حل کوئی نہیں ہے۔ اس بات کی مطلق پروا نہیں کی جاتی کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کا مطلب تمام اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ رواج بن گیا ہے کہ تیل کی وجہ سے قیمتیں بڑھ تو جاتی ہیں مگر بھولے سے کبھی تیل سستا ہو جائے تو قیمتیں کم نہیں ہوا کرتیں۔ حکومتِ وقت نے چند ارب روپے رمضان ریلیف کے لیے مختص کر کے جب حاتم طائی کی قبر کو دونوں لاتیں ماری تھیں تو اسی وقت ماتھا ٹھنکا تھا کہ اس طرح گھاٹے کا سودا تجارت پیشہ حکومت کیسے کر سکتی ہے۔ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ وہ کالا باہر آ گیا ہے۔ جب ملکِ عزیز کا باقی تاجر طبقہ عید کمانے میں مصروف ہے تو مہاتاجر کیوں پیچھے رہے۔ چند ارب روپوں کا ریلیف دے کر کئی کھرب روپے عوام کی جیبوں سے رمضان شریف کے آخری عشرے میں زبردستی عیدی وصول کرنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔
’’ بادشاہ سلامت سلطنت کے دورے سے محل میں واپس لوٹے تو رات ہو چکی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ محل کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دروازے پر کھڑے بوڑھے دربان کو دیکھا جو نحیف و نزار تھا۔ سخت سردی میں بھی اس نے گرم جرسی پہنی ہوئی تھی نا گرم چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس بوڑھے کو کیا سردی نہیں لگتی۔ پاس بلا کر یہی سوال جب اس بوڑھے سے کیا تو وہ بولا کہ اس کی تنخواہ سے صرف خاندان کی روزی روٹی ہی پوری ہو پاتی ہے۔ اتنی بچت نہیں ہوتی کہ گرم چادر خرید سکے۔ سردی لگتی تو ہے مگر اب اس کی عادت ہو گئی ہے لہٰذا سردی کا احساس کم ہوتا ہے‘‘۔
بادشاہ سلامت کو بڑا دکھ ہوا۔ فرمایا، ’’میں ابھی محل سے تمہارے لیے گرم چادر بھیجتا ہوں۔ اسے اوڑھ لینا۔ سردی نہیں لگے گی‘‘۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ کو چادر بھیجنا یاد نہ رہا۔ صبح یاد آیا۔ اس نے دربان کو چادر بھیجی۔ چادر لے کر جانے والا خادم تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور بادشاہ سلامت کو بتایا کہ صبح سویرے وہ دربان فوت ہو گیا تھا۔ اس کی جیب سے بادشاہ سلامت کے نام لکھا ہوا ایک خط برآمد ہوا تھا جو خادم نے بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خط میں لکھا تھا،
’’ بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔ سخت سردی کی پروا کیے بغیر آپ کے در پر دربانی کرتا رہا۔ گرم چادر خریدنے کی سکت نہ تھی۔ سردی کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ رات آپ نے گرم چادر بھیجنے کا وعدہ کیا تو ایک آس بندھ گئی۔ ساتھ ہی سردی کا شدید احساس بھی ہونے لگا۔ آپ تو شاید چادر بھیجنا بھول گئے مگر میں گرم چادر کی امید میں ساری رات کانپتا رہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ بچ پائوں گا۔ میں نے اپنے حالات سے سمجھوتہ کر کے جینا سیکھ لیا تھا۔ آپ کی جھوٹی تسلی نے مجھے موت کے منہ میں پہنچا دیا ہے‘‘۔
یہی کچھ پاکستانی عوام کے ساتھ ہوا ہے۔ پی ڈی ایم کی بے حِس حکومت کے بعد نگران حکومت نے جب خون آشام عفریت کا روپ دھار کر عوام کا جینا محال کر دیا تو عوام نے اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر تین وقت کے کھانے کو دو وقت میں قبول کر کے ایک وقت کا فاقہ شروع کر دیا تھا۔ پھر الیکشن کی گہماگہمی شروع ہو گئی۔ محترم میاں نواز شریف نے بجلی کے بلوں پر دکھ کا اظہار کیا، ڈالر کی قیمت میں بڑے اضافے کو ظلم قرار دیتے ہوئے اس میں نمایاں کمی کا خواب دکھا دیا۔ اپنی حکومت بن جانے کی صورت میں تیل کی قیمت میں بڑی کمی کا معدہ جاں فزا سنایا۔ مگر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ واپس اپنے محل میں جا کر بادشاہ سلامت کی طرح اپنے وعدے بھول گئے۔ گیس، بجلی اور تیل کی قیمتیں پہلے بھی بڑھتی تھیں اور عوام رو دھو کر برداشت کر لیتے تھے مگر میاں نواز شریف کے دلفریب وعدوں کے بعد جب ان تینوں چیزوں کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ ہوا ہے تو ’’ سردی کا احساس بڑھ گیا ہے‘‘۔ عوام پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’ میاں صاحب! ریلیف نہیں دے سکتے تھے تو جھوٹی امید کیوں دلائی تھی؟۔ اگر آپ نے بھی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کے تسلسل کو برقرار رکھنا تھا تو مسیحا کا بہروپ کیوں بھرا تھا؟‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button