Editorial

انوار الحق کاکڑ 8ویں نگراں وزیراعظم مقرر

بالآخر نگراں وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ بخیر و خوبی انجام پا گیا۔ شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے درمیان دوسری ملاقات میں نگراں وزیراعظم کے تقرر کا فیصلہ کرلیا گیا۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے سمری پر دستخط کیے جانے کے بعد انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم بن گئے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم بنائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان وزیراعظم ہائوس میں آج نگراں وزیراعظم کے حوالے سے مشاورت کی گئی، جس کے بعد شہباز شریف لاہور روانہ ہوگئے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم بنائے جانے کی تصدیق کی۔ راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے درمیان انوار الحق کاکڑ کو نگراں وزیراعظم بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے اور وزیراعظم نے اس فیصلے پر دستخط بھی کر دئیے ہیں۔ ترجمان ایوان صدر کا کہنا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے نگراں وزیراعظم کے لیے بھیجی گئی سمری پر دستخط کردئیے ہیں۔ ترجمان کے مطابق صدر مملکت نے انوارالحق کاکڑ کی بطور نگراں وزیراعظم تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 224 ایک کے تحت دی ہے۔ دوسری جانب ترجمان وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لیے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نام پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ ترجمان وزیراعظم آفس نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے قائد حزب اختلاف کا مشاورتی عمل میں تعاون پر شکریہ ادا کیا ہے اور وزیراعظم نے 16ماہ میں بطور بہترین حزب اختلاف کی قیادت پر بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو سبکدوش ہونے پر آج (اتوار) گارڈ آف آنر دیا جائے گا۔ انوارالحق کاکڑ نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے لیے نامزد کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر کا شکر گزار ہوں، بطور نگراں وزیراعظم اپنی ذمی داریاں احسن طریقے سے انجام دوں گا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے لیے پروٹوکول وزیر اعظم ہائوس سے روانہ ہوگیا، انوار الحق کاکڑ کا آٹوکیڈ وزیراعظم ہائوس سے منسٹر انکلیو روانہ ہوگیا۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کاکڑ سے ہے، انہوں نے کوئٹہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 2008میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ 2013میں بلوچستان حکومت کے ترجمان رہے جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل میں ان کا کلیدی کردار رہا۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ 2018میں سینیٹر منتخب ہوئے اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے چیئرمین ہیں۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کیریئر بے داغ ہے۔ وہ انتہائی پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی شخصیت کے حامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی اُن کے کردار کی تعریف کی جارہی ہے اور ان کے تقرر کو اچھی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اُمید ہی کہ وہ بطور نگراں وزیراعظم ملک و قوم کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے اور اپنے فرائض انتہائی احسن انداز میں انجام دیں گے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے دوران بھی غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے اور اس عمل کو احسن انداز میں مکمل کروانی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ قوم بھی ان کی بطور نگراں وزیراعظم تقرری کو ستائش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ ایک ایسی شخصیت کو اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے جو ناصرف اچھی اور مثبت سوچ کے حامل ہیں بلکہ ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی اُن میں موجزن ہے۔ خدا کرے کہ بطور نگراں وزیراعظم ان کا مختصر دور ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہو اور ملک بہتری کی سمت گامزن رہے۔دوسری جانب دیکھا جائے تو ایک جمہوری حکومت نے بہ احسن خوبی اپنی مدت میعاد مکمل کی اور اب وہ انتہائی باوقار طریقے سے رخصت ہورہی ہے۔ کوئی چپقلش نہیں، کوئی تنازع نہیں، کسی پر الزامات کی کوئی بارش نہیں، اس امر کی ستائش نہ کی جائے تو یہ ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ سیاسی بردباری، تدبر اور دانش کا اصل مظاہرہ اسی کو کہتے ہیں۔ اتحادی حکومت نے ملک کو مصائب سے نکالنے کے لیے شبانہ روز خدمات انجام دیں۔ دوست ممالک سے ملک کے لیے تعاون حاصل کرنے کے لیے پیش پیش رہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند مشکل فیصلے بھی اس حکومت کو کرنے پڑے، جس سے مہنگائی کا طوفان ضرور آیا، لیکن کچھ ایسے اقدامات کر لیے گئے، جن کے مثبت نتائج آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے اور اس کا فائدہ ملک و قوم کو بھرپور انداز میں پہنچے گا۔ اب ضروری ہے کہ نگراں حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جنرل الیکشن کو ایسے منعقد کروایا جائے کہ ان پر کسی بھی قسم کے شبہات ظاہر نہ ہوسکیں۔ شفافیت اور ایمان داری سے ان کا انعقاد ہونا چاہیے کہ ہارنے والی جماعتیں اور سیاست دان بھی اپنی شکست کو کھلے دل سے قبول کریں اور جیتنے والوں کو حکومت بنانے کا موقع دیں۔ اقتدار کی منتخب حکومت کو منتقلی کا عمل بھی اسی طرح بخیر و خوبی انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کی موجودہ حالات کے تناظر میں ضرورت بھی ہے، کیونکہ ملک پہلی ہی معاشی مصائب کے گرداب میں بُری طرح پھنسا ہوا ہے۔ نگراں حکومت کی توجہ ملکی معیشت کی بہتری کی جانب بھی مبذول ہونی چاہیے۔ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت بھی معیشت کو پٹری پر لانے میں اپنا کردار نبھائے۔ سیاست ایک خدمت کا نام ہے۔ اگر عوام کی خدمت کے جذبے کے ساتھ کی جائے تو اس کے ثمرات ملک و قوم پر ظاہر ہوسکتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح میں ہولناک اضافہ
قوم پچھلے کچھ سال سے بدترین مہنگائی کا عذاب کا سامنا کر رہی ہے۔ سابق دور حکومت میں گرانی کا ایسا طوفان آیا کہ غریب عوام کا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ اُن کے لیے ہر نئے دن کا سورج مہنگائی کی اطلاع کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ روزانہ ہی کسی نہ کسی شے کے دام میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے پانچ سال سے جاری ہے۔ مہنگائی کی شرح ہولناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ملکی آزادی کے ابتدائی 70برس میں پہلے کبھی گرانی میں اتنی شدّت دیکھنے میں نہیں آئی، جیسی اب نظر آتی ہے۔ ہر شے کے دام دُگنے، تگنے ہوچکے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تین گنا بڑھ چکی ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ریلوے کرایوں میں بھی ہوش رُبا اضافہ ہوچکا ہے۔ اشیاء ضروریہ غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ آٹا 160روپے اور چینی 155روپے فی کلو مارکیٹوں میں فروخت ہورہے ہیں۔ غریب عوام کے لیے ان حالات میں روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ترین امر ہے۔ ایسے میں وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ کون اُن کے درد کا درماں کرے گا۔ یہاں تو عوام پر بوجھ منتقل کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی جاتی جب کہ اُن کو ریلیف کے معاملے میں آخری حد تک رُلایا جاتا ہے۔ ہر ہفتے مہنگائی کی شرح ہوش رُبا حد تک بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے اخباری اطلاع کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 0.69فیصد کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کیے، جس کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 30.82فیصد تک پہنچ گئی، گزشتہ ہفتے 29اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 17کی قیمتیں مستحکم رہیں، گزشتہ ہفتے پسی ہوئی مرچ کا 200 گرام پیکٹ 13روپے، پیک دودھ 390 گرام 28روپے مہنگا ہوا ہے، دال ماش 15روپے، دال مونگ 3روپے اور دال مسور 2روپے فی کلو مہنگی ہوئی ہے، سبزیوں میں لہسن کی فی کلو قیمت میں 10روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات نے بتایا کہ چینی فی کلو 3روپے، زندہ مرغی کی فی کلو قیمت میں 9روپے، انڈے فی درجن 5روپے مہنگے ہوئے ہیں، گزشتہ ہفتے پیاز، آلو، ٹماٹر اور کیلے بھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں ہفتہ واری یہ اضافہ تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ حکومت کو مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کو اشیاء ضروریہ مناسب نرخوں پر فراہمی کے لیے سنجیدہ کاوشیں کی جانی چاہئیں۔ مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر کا راستہ روکنا چاہیے۔ عوام کے ریلیف کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button