ColumnImtiaz Ahmad Shad

جشن آزادی کیوں نہ منائیں؟

امتیاز احمد شاد
وطن ِعزیز کے تقریباً چوبیس کروڑ سے زائد عوام اس سال 14اگست کو76واں یوم ِ آزادی کچھ ایسے حالات میں منانے جارہے ہیں کہ ہر طرف سیاسی، معاشی عدم استحکام ہے۔ سیاسی نفرتوں کا درجہ حرارت عروج پر ہے۔ عوام میں بے چینی اور غیر یقینی اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک و قوم بہت بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ اور ان مشکلات کا اصل سبب وہ قیادت ہے جو ذاتی مفادات پر عوامی اور ملکی مفادات کو قربان کر چکی۔ مگر اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ آزادی ایسی عظیم نعمت کو جوش و جذبے سے نہ منایا جائے۔ جوش و جذبے سے مراد ناچ گانا یا اچھل کود نہیں بلکہ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ہمیں اس ملک کے بنائے جانے اور اتنی قربانیوں کا مدعا جاننا چاہیے۔ اس دِن تجدید عہد کریں کہ یہ وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر ریاست ِ مدینہ کے بعد معرض وجود میں آئی۔ جس کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ ہے۔ قائد اعظمؒ نے واشگاف الفاظ میں کہا:ہمارے پیش ِ نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں، پھر 114خطابات اور تقاریر میں واضح پیغام دیا کہ ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا، جب قائدِ اعظمؒ سے دستور و آئین کے متعلقہ استفسار کیا گیا تو سنہری حروف سے لکھے جانے والے الفاظ میں جواب دیا: ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے 14سو سال قبل ہمیں عطا فرمایا، یہ ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے، جہاں ہم اسلام کو نظام ِ زندگی کے طور پر اپنا سکیں گے اور اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق گزاریں گے۔ یہ ہے مقصدِ پاکستان ، یہ ناچنے گانے، بے حیائی و فحاشی پھیلانے اور کرپشن ، لوٹ مار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم انفرادی حیثیتوں میں صرف اپنے گھر کی چار دیواری کو اپنا سمجھتے ہیں۔ چار دیواری کے اندر صفائی کرتے ہیں اور گھر کا کچرا گلی میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم گھر کو تو صاف رکھتے ہیں مگر ملک کو صاف نہیں رکھتے۔ ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنا تو دور، ہم نے شاید اسے اپنا ماننا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر، اداروں پر، معاشرے پر، میڈیا پر، سیاسی رہنمائوں اور حکومت پر ڈال کر ہم اپنے فرائض سے غافل کیسے ہو سکتے ہیں؟، قومیں اپنے نظریات کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں۔ اپنے اسلاف کے طے شدہ نقوش، اپنے نظریات کو فراموش کرنے والوں کا وجود یہ دھرتی زیادہ دیر تک برادشت نہیں کرتی۔ ان کا وجود جلد ہی حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے اور پھر پاکستان اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے بغیر سر کے جسم۔ اس وطن کی خاطر ہمارے اسلاف کو توپوں کے آگے باندھ کر اڑا دیا گیا، کتنے ہی نوجوانوں کو قید میں ڈالا گیا جن کی ہڈیاں بھی اسی قید خانے میں ختم ہو گئیں۔ مائوں، بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئیں، چھتوں سے اٹھا کر زمین پر مارا گیا، سر تن سے جدا ہوئے، ناشتے میں اہل و عیال کے سر پیش کیے گئے۔ مائوں کے سامنے ان کے لخت جگر ٹکڑے ہوئے، درندگی کی انتہا کہ حاملہ مسلمان خواتین کے پیٹ تلواروں سے چیر کر بچے نکالے گئے اور ان کو نیزوں پر بلند کیا گیا، پھر کہیں جا کر مخلصانہ، تدبرانہ قیادت کی شب وروز انتھک محنت، مشقت سے آزادی نصیب ہوئی۔ آج کا نوجوان جب اپنے اطراف پر نظر دوڑاتا ہے اور اپنے حالات کا جائزہ لیتا ہے تو یقینا اس کے دماغ میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ اس وطن سے آج تک غربت، جہالت، بے روزگاری، معاشی و اقتصادی بحران، بوسیدہ نظام ِتعلیم، امتیازی سلوک، عدل و انصاف کا عدم توازن، جاگیرداری و سرمایہ داری کیوں ختم نہ ہو سکی؟، غربت و افلاس، مذہبی و لسانی تفرقات، تعصب ، محرومی، موذی امراض کی زنجیروں میں جکڑی، بنیادوں حقوق سے یہ قوم محروم کیوں ہے؟ کیوں آج بھی ظلم دندناتا پھر رہا ہے، غریب سسکتا اور ملک کی کشتی ہچکولے کھاتی پھر رہی ہے؟ کیوں آج بھی قدرتی وسائل سے لیس ہونے کے باوجود آئی ایم ایف و دیگر کے مرہون منت ہیں؟ کیوں ایک طبقہ آکسفورڈ نصاب اور دوسرا طبقہ بنیادی تعلیم سے محروم ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم سے بہت بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج ترقی یافتہ جبکہ ہم تنزلی سے دوچار ہیں۔یقینا ایسے بہت سے اور سوالات ہیں جو نوجوان نسل کو بے تاب کرتے ہیں اور جب وہ حکمران طبقے کو عیاشیوں میں مگن دیکھتے ہیں تو ان کا خون کھولتا ہے۔ بطور قوم ہمارا فرض ہے کہ یوم آزادی پر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور اپنے اسلاف کی قربانیوں کو مدِ نظر رکھ کر سیمینار، تقریبات کا انعقاد کریں اور اس میں وہ تمام حالات و وجوہات نئی نسل کے سامنے رکھیں تاکہ اس نعمت خدا وندی کی عظمت کو سمجھا جا سکے۔ 75سال سے جشن آزادی جوش و جذبہ سے منانے کے باوجود نئی نسل کے 20فیصد کو بھی شاید اصل مقاصد کا صحیح علم نہیں۔ عظیم ترین مقاصد کے ہوتے ہوئے بھی اگر راستہ غلط اختیار کیا جائے تو منزل کبھی نہیں ملتی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں، افسوس! ہم نے اس ملک سے وہ وفاء نہیں کی جس کا یہ متقاضی ہے۔ یقینا یہ دیکھ کر ہر ذی شعور ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہم اس ملک میں ترقی، اسلامی نظام عدل اور احتساب کا طریقہ لانے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسرے جانب ملک کے کسی ادارے یا فرد پر کسی کو اعتبار نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد اس طرح پورے نہیں ہوئے جس طرح ہمارے بزرگوں نے سوچا تھا۔ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر تحریک پاکستان کے رہنما اگر آج زندہ ہوتے تو پاکستان کی موجودہ حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتے۔ اگر ہم اس ملک کو مدنیہ جیسی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُسی طرز پر جدوجہد کرنی چائیے۔ ہمیں رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نقوش پا کی پیروی کرتے ہوئے پورے خلوص کے ساتھ پاکستان کو انہی خطوط پر استوار کرنا چاہئے جیسے قوانین مدینہ میں رائج تھے، تبھی لوگوں کو ویسا سکون، ویسا امن حاصل ہو سکے گا جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا۔ عناد ،رنج اور غصہ کو ایک طرف رکھ کر آج ہمیں اس آزادی کے موقع پر شکر ادا کرنا چاہیے تمام تر ذاتی سیاسی، مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ، نسلی تفرقات کو بالا طاق رکھتے ہوئے اس وطن کی عزت حرمت کو مقدم رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیے۔ ملک اس وقت شدید معاشی، اخلاقی بحران کا شکار ہے، ہم مسائل کے حل کے بجائے ایک دوسروں کو کاٹنے پر تیار ہیں۔ مسائل کے حل کے لئے ہمیں آگے آنا ہوگا۔ سسٹم کو برا بھلا کہنے کی بجائے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سسٹم میں کیسے مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ بڑے پن کا مظاہرہ کیا جائے۔ آئیے! اپنے ملک و ملّت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدیدِ عہدِ وفا کریں کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے۔ ہمارا ملک، آزادی ہم سے جسد ِ واحد ہونے کا متقاضی ہے۔ ہمیں سیاسی، مذہبی، گروہی، لسانی، قبیلائی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر ایک امت بن کر اس ملک کی خاطر ایک ہونا ہو گا۔ کیا باقی اقوام کی طرح ہم بھی وطن کی خاطر ایک نہیں ہو سکتے؟ امید ہے کہ وہ سورج جلد طلوع ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو تمام اندرونی بیرونی سازشوں، خلفشار، غربت، دہشت گردی، جملہ مسائل اور بحرانوں سے نجات دے اور یہ ملک تا قیامت قائم و دائم رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button