Columnمحمد مبشر انوار

بھارتی مستقبل

محمد مبشر انوار( ریاض)
گزشتہ تقریبا پچیس برسوں سے دیار غیر میں مقیم، مختلف قومیتوں کے افراد سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور بالخصوص بھارتی شہریوں سے بھی ملاقاتیں رہتی ہیں،ان ملاقاتوں میں سے بیشتر اوقات پاکستانی سیاسی صورتحال کے باعث ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل قائم نہیں رہا۔ جمہوری عمل کا عدم تسلسل بھی کسی حد تک قابل دفاع ہوتا اگر پاکستان میں وقفوں کے دوران ہی،واقعتا حقیقی جمہوریت پروان چڑھتی ،سیاست کے نام پر سیاسی شخصیات کی مخصوص نرسری میں پرورش نہ ہوتی،سیاسی افق پر نمایاں ہونے کے بعد ان سیاسی شخصیات میں آمریت کی جھلک نہ ملتی،تب بھی پاکستان کے سیاسی ماحول کا دفاع کیا جا سکتاتھا۔ لسانیت ،علاقائیت ،مذہبی گروہ بندی میں مبتلا نہ ہوتے اورتقسیم درتقسیم نہ ہوئے ہوتے،پاکستانیت؟قومیت کی جھلک میسر ہوتی ،تب بھی سیاسی صورتحال کا دفاع ممکن تھا۔سیاستدانوں کے باہمی اختلافات ذاتیات تک نہ پہنچتے،امن و امان قائم رہتا،کرپشن کے باوجود ملکی معیشت و صنعتی ترقی نظر آتی،سیاسی انتقام میں اداروں کی مداخلت کی بجائے اداروں میں ماہرین کی موجودگی اور ان اداروں کا کماحقہ بروئے کار آنا منظر عام پر ہوتا تو ممکن ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا دفاع ممکن ہوتا۔پاکستان کی دفاعی صلاحیت و اہلیت و قابلیت ہی ایک ایسا ایشو ہے کہ جس پر بہرکیف کچھ نہ کچھ دفاع کیا جا سکتا ہے ،لیکن اس معاملے میں بھی سقوط ڈھاکہ پر ہتھیارڈالنے کے عمل نے ہمیشہ شرمسار ہی رکھا ہے گو کہ میں نے اسے کبھی بھی جنگ تسلیم نہیں کیاکہ یہ جنگ میدان کی بجائے کسی اور طرز پر لڑی گئی کہ جس میں مقامی آبادی کے بھیس میں بھی دشمن موجود رہا۔بہرکیف آج اہلیت و قابلیت کے باوجود جب کلبھوشن کے مقدمے پر نظر ڈالیں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے،ابھیینندن کی واپسی،گو کہ حالات کی مناسبت سے بہترین حکمت عملی کہا جا سکتا ہے،پر اپنی کمزوری کا احساس دامن گیر ہوتا ہے کہ دوسری طرف امریکہ ہے کہ جب چاہے،جہاں سے چاہے اپنے قیدی پاکستانی سرزمین سے لے جاتا ہے۔کیا ایک جوہری پاکستان کی حیثیت اتنی سی ہے کہ دنیا کی قابل ذکر عسکری حیثیت رکھنے کے باوجود دیگر ممالک اپنے شہریوں کو طنطنے کے ساتھ ،پاکستان کے قوانین کو روندتے ہوئے ،آزاد کروا لیتا ہے اور ہم سر جھکائے،بس احکامات کی تعمیل میں مشغول رہتے ہیں؟
قائد اعظمؒ نے آزادی حاصل کرتے وقت،پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ و کینیڈا جیسے تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا کہ جس طرح امریکہ و کینیڈا کے درمیان ہمسایہ تعلقات ہیں،بعینہ پاکستان او ربھارت کے درمیان بھی ایسے ہی ہمسایہ تعلقات رکھے جائیں گے تا کہ خطے میں امن بھی برقرار رہے اور دونوں ممالک کے پاس ترقی کرنے کے مواقع بھی موجود رہیں۔ بدقسمتی سے بھارتی وزیر اعظم نہرو نے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے حصہ میں آنے والے اثاثہ جات کو منتقل کرنے میں دانستہ لیت و لعل سے کام لیا جس کے پیچھے ان کی واضح بدنیتی موجود تھی کہ ایک طرف پاکستان کے وسائل روک کر پاکستان کی روزمرہ اخراجات کے لئے مسائل پیدا کئے جائیں اور اتنے زیادہ مسائل پیدا کئے جائیں کہ پاکستان بھارت کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائے۔اس بدنیتی کے باوجود ،الحمد للہ ،پاکستان اپنے اولین دور میں ہی مسائل پر نہ صرف قابو پانے میں کامیاب رہابلکہ اس کی صنعتی ترقی بھی دوسروں کے لئے قابل تقلید ٹھہری،دنیا بھر میں اس کی صنعتی ترقی اور ہنرمندی کے چرچے سنائی دئیے،اور پاکستان کے مستقبل کو انتہائی تابناک اور سنہرا قرار دیا جانے لگا۔معاشی ترقی کومعکوس کرنے کی وجوہات بارہا اپنی تحریر میں کر چکا ہوں،اس لئے موضوع کے مطابق اس کی بجائے،قومیت کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا کہ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت مسلسل ہمیں ،اوپر بیان کی گئی اکائیوں میں تقسیم کرتی گئی،تو دوسری طرف بھارتی سیاستدان اپنے شہریوں کو ایک قوم بنانے میں جتے رہے۔برصغیر کی تقسیم کا بنیادی نعرہ ہی دوقومی نظریہ رکھا گیا اور پاکستان بننے کے بعد ،پاکستانی ارباب اختیار نے نہرو کے روئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ریاستوں کے درمیان دشمنی کی بنیادتصور کیا اور یوںمشرقی پاکستان کے دفاع کو مغربی پاکستان کی سرحدوں سے مشروط رکھا۔اصل مسئلہ دونوں ریاستوں کے باہمی تعلقات تھے ،جو دوستانہ ہمسائیگی کی بجائے ابتداء ہی میں دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے،حالانکہ دونوں ریاستوں کے درمیان باقاعدہ1965کی جنگ تک،بھارتی شہری پاکستان میں کرکٹ میچ سے محظوظ ہونے کے لئے آتے بھی رہے،انہیں یہاں پیارو محبت و انس بھی ملا،جس کا اظہار انہوں نے برملا بھارت میں کیا۔ جتی کہ آج بھی اگر کوئی معروف بھارتی پاکستان آتا ہی،تو نہ صرف اس کی پذیرائی کی جاتی ہے بلکہ اسے آج بھی محبتوں سے نوازا جاتا ہے اور وہ پاکستان کی محبت سے سرشار واپس بھارت جاتا ہے، کئی نامور شخصیات اس محبت کے اظہار میں بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں جان کی بازی بھی ہار چکی ہیں۔
بہرکیف اس سب کے باوجود،اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی حکومتوں نے مسلسل اپنے شہریوں کو ایک قوم بنانے کے لئے مسلسل تگ ودو کی ہے،اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارت میں رہنے والا ہر شہری ،بلا امتیاز اپنی مذہبی شناخت کے،خود کو بھارتی کہلواتا ہے۔اس سوچ کے باعث ،پاکستان میں تشہیر پانے والا وہ مفروضہ ہماری اپنی کوتاہ اندیشیوں سے دم توڑ چکا کہ پاکستان کے الگ وجود سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو تقویت ملے گی،آج حقیقت اس کے برعکس ہو چکی ہے۔آج بھارتی مسلم،پاکستان سے مایوس ہو چکا ہے کہ اسے نظر آتا ہے کہ جس مقصد کے لئے پاکستان کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی گئی تھی،پاکستان اپنے مقصد سے کوسوں دور جا چکا ہے اور اس کی اشرافیہ اسے مضبوط بنانے کی بجائے،اس کی بنیادیں کھوکھلی کر چکی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے سے قاصرنظر آتا ہے،یہاں کے شہری اپنے انسانی حقوق سے محروم ہیںتو پاکستان کا وجود کس طرح بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک ڈھال بن سکتا ہے؟
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ بھارت میں بپااندرونی تحریکیں،بھارت کے ٹکڑے کر دیں گی اور ہمیں ہاتھ ہلانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے،درحقیقت دیوانے کا خواب ہے۔کل تک میں بھی اس خواب کا اسیر تھا لیکن جیسا عرض کیا کہ یہاں رہتے ہوئے بھارتی شہریوں کے ساتھ ملاقاتیں،اس خواب کو توڑنے کے لئے بہت کافی ہیں۔بھارت میں انتہا پسند حکومت ہونے کے باوجود بھارتی مسلمان،یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب سیاسی شعبدہ بازیاں ہیں اور بھارتی حکومت کے لئے ان سے نپٹنا کوئی مشکل نہیں لیکن چونکہ وہاں جمہوری عمل میں تسلسل ہے اور ایسی جھڑپوں کو ’’ راج نیتی‘‘سمجھا جاتا ہے۔ عام انتخابات سے قبل اس میں تیزی کے پیچھے کچھ سیاسی مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں تا کہ جیسے ہی انتخابی دنگل سجنے کو ہو،ان کو بخیر وخوبی سمیٹ کر،عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ کھرے کئے جا سکیں۔بھارتی شہریوں کے بقول ،ہندو ،مسلم،سکھ عیسائی بالعموم سب مل جل کر رہتے ہیںالبتہ چند مخصوص علاقوں میں بوجوہ نفرت کی آگ جلائی رکھتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت اس کو ٹھنڈا کرکے عوامی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔ رہی بات حالیہ منی پور ،میزو لینڈ وغیرہ میں شورشوں کی،تو اس پر انہیں قطعاکوئی پریشانی دکھائی نہیں دیتی کہ یہ سب ان کے لئے معمول کی بات ہے۔کشمیر اور خالصتان کی آزادی کی تحریکیں،عرصہ سے گرم ہیں ،لیکن تاحال بھارت انہیں آزاد نہیں کررہااور نہ ہی مسقبل قریب میں ان کی آزادی کے آثار نظر آتے ہیں البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اگر چین منی پور یا میزو لینڈ کے باشندوں کی حمایت کرے توان کی آزادی سے ممکن ہے کہ بھارت کی دیگر آزادی کی تحریکیں کامیاب ہو جائیں بصورت دیگر بھارتی ریاست کے حصے بخرے، ہماری خواہشات کے تابع نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button