ColumnRoshan Lal

عید اور ہماری فلمی صنعت .. روشن لعل

روشن لعل

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کی زندگی میں تفریح کے مواقع نہ ہوں تو اسے مکمل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تفریح کے مواقع فراہم ہونے سے نہ صرف ذہنی و جسمانی تنائو ختم ہوتا ہے بلکہ وقتی طور پر ہی سہی ، پریشانیوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ روئے زمین پر انسانوں کو فلمیں دیکھنے کے مواقع میسر آنے کے بعد ابھی تک کوئی دوسری تفریح اس میڈیم کا متبادل نہیں بن سکی۔ ویسے تو انسانوں کو عام دنوں میں بھی تفریح کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں مگر عیدین کی حیثیت یہ ہے کہ انہیں تفریح کا بھنڈار سمجھ کر ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں جب سے فلم سازی کا آغاز ہوا اس وقت سے عید جیسے تہواروں پر خاص طور پر بنائی گئی فلمیں ریلیز کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عیدین پر خاص طور سے بنائی گئی فلمیں ریلیز کرنے کا مقصد زیادہ منافع کمانے کے علاوہ عوام کو تفریح کے زیادہ مواقع کی فراہمی اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنا بھی ہوتا ہے۔ گو کہ پاکستانی فلم انڈسٹری1970اور 1980کی دہائیوں کے بعد زبوں حالی کا شکار ہی مگر اس کے باوجود یہاں عید ین پر خصوصی طور پر بنائی گئی فلمیں ریلیز کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس روایتکو برقرار رکھتے ہوئے عید ہذا پر پانچ نئی فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں۔ اس عید پرجو فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں ان میں چار اردو اور ایک پنجابی ہے۔ تین اردو فلمیں کراچی میں بنائی گئیں جب کہ ایک اردو اور ایک پنجابی فلم کی ریکارڈنگ کے لیے لاہور کے نگار خانے اور پنجاب کی مختلف اضلاع کی لوکیشنز استعمال کی گئی ہیں۔ کراچی میں بنائی گئی فلموں کے نام ’’منی بیک گارنٹی‘‘، ’’ہوئے تم اجنبی‘‘ اور ’’ دادل‘‘ ہیں ۔ ان فلموں میں سے فلم ’’ منی بیک گارنٹی‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کئی دوسرے سپر سٹارز کے ساتھ کرکٹر وسیم اکرم اور ان کی آسٹریلوی بیوی شنیرا بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ فلم ’’ ہوئے تم اجنبی‘‘ کی کہانی ان واقعات پر مبنی ہے جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے دوران رونما ہوئے۔ اس فلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ملک کے نامور فنکار ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان اور اندرا گاندھی جیسے سیاستدانوں کے کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس فلم کے ہدایتکار ماضی کی سپرہٹ فلمی ہیرو شاہد کے بیٹے اور معروف ٹی وی اینکر کامران شاہد ہیں۔ کراچی میں بنائی گئی تیسری فلم کا نام ’’دادل‘‘ ہے۔ یہ ایک ایکشن فلم ہے ۔ اس فلم کو بنانے والی ٹیم کامیاب ایکشن فلمیں ریلیز کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ لاہور میں بنائی جانے والی اردو فلم کا نام ’’ دوڑ‘‘ ہے۔ فلم ’’ دوڑ‘‘ کے فلمساز کا اسلم حسن ہیں، جنہوں نے یہ فلم پروڈیوس کرنے کے ساتھ اس میں اداکاری بھی کی ہے۔ اسلم حسن پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ اسلم حسن کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے فلم ’’ دوڑ‘‘ منافع کے حصول سے زیادہ اس جذبہ کئے تحت بنائی ہے کہ لاہور شہر میں پھر سے فلمی سرگرمیاں بحال ہو ں۔’’ دوڑ‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں فلم کے شفقت چیمہ اور ٹی وی کے سلیم معراج جیسے سینئر اور تجربہ کار اداکاروں کے ساتھ کئی نئے چہروں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔’’ دوڑ‘‘ کے نوجوان ڈائریکٹر ندیم چیمہ کا دعویٰ ہے کہ اس فلم کے ایکشن سین ایسی تکنیک کے ساتھ ریکارڈ کئے ہیں جسے قبل ازیں یہاں کسی نے بھی استعمال نہیں کیا۔ لاہور میں ’’ لاہور قلندر‘‘ کے نام سے بنائی گئی دوسری فلم کا میڈیم پنجابی زبان ہے۔ اس فلم کے ہدایتکار کئی پنجابی فلمیں بنانے والے شاہد رانا ہیں اور اداکارہ صائمہ نور نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں عید پر ریلیز ہونے والی فلمیں بنانے کے لیے جن لوگوں نے بھی سرمایہ کاری کی، یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے ماضی میں بدمعاشی کا پیسہ عیاشی کرنے کی غرض فلموں میں لگا کر فلمی صنعت کا بیڑا غرق کیا ۔ پاکستان میں اس وقت جو لوگ فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان کے متعلق یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ وہ صرف سرمایہ کار نہیں بلکہ حقیقی فلم ساز ہیں۔ حقیقی فلم سازی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کام صرف دولت کے بل پر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ، کیونکہ فلم بنانے کے لیے ایک فلم ساز کے پاس سرمائے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ لگن، صبر اور ثابت قدمی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں آج کل جو لوگ فلمیں بنارہے ہیں، ان کی لگن پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ ان فلم سازوں نے اپنی لگن کی بدولت فلمیں تو بنا لی ہیں مگر ان کی مجبوریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے وہ مین سٹریم میڈیا پر اپنی فلموں کی تشہیر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس مجبوری کی وجہ سے ان فلم سازوں نے فلموں کی تشہیر کے لیے صرف اور صرف سوشل میڈیا پر انحصار کیا ہوا ہے۔ عجیب بات ہے کہ مین سٹریم میڈیا ان فلم سازوں کی مجبوریوں کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے اور یہ بتانے میں انتہائی بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ اس عید پر کونسی فلم کہاں ریلیز ہورہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے سیٹھوں کو ہمدردی میں نہ سہی صرف یہ سوچ کر ہی عید پر ریلیز ہونے والی فلموں کا ذکر اپنی نشریات میں کر دینا چاہیے کہ اگر یہاں فلمیں کامیاب ہونا شروع ہوگئیں تو فلم سازی کا کام میڈیا سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں ان کو بھی بالواسطہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ مثبت کاروباری اپروچ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی بھی میڈیا ہائوس اس طرح کی باتیں سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا کے لوگ تو شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ ہالی ووڈ میں جاری فلمی سرگرمیوں کو امریکی معیشت کے لیے ترقی کا انجن کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس وقت فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے باہمی تعاون سے تقریباً 2.4ملین لوگوں کو روزگار کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مواقع میسر ہیں۔ روزگار کے ان مواقع کی وجہ سے امریکہ میں ہالی ووڈ سے وابستہ لوگوں کو186بلین ڈالر سالانہ معاوضے کی شکل میں ادا کئے جاتے ہیں۔ ہالی ووڈ کا بزنس سرکل تو بہت بڑا ہے مگر بالی ووڈ انڈیا کی نسبتاً چھوٹی شو بزنس انڈسٹری کے بزنس سرکل میں بھی ایک اندازے کے مطابق زر کی کل پیداوار 15.60بلین امریکی ڈالر تک ہے۔ انڈیا میں ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ لوگوں کا روزگار شو بزنس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ گو کہ پاکستان میں فلم یا شو بزنس انڈسٹری کا پیداواری حجم ہالی ووڈ یا بالی ووڈ جتنا بڑا نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر پھر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں شو بزنس انڈسٹری میں کام کرنے یا اس کی نشوو نما کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افسوس کہ یہاں ریاست کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شو بزنس انڈسٹری کی مضمر استعداد سے ممکنہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ ریاست کی عدم توجہی کے باوجود جو فلم ساز عید جیسے مواقع پر فلمیں ریلیز کر کے لوگوں کو تفریح کے مواقع فراہم کر رہے ہیں ان کے لیے حکومت چاہے کچھ کرے نہ کرے مگر عام لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان کی کاوشوں کو سراہنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button