ColumnMazhar Ch

بچوں کے سائنسی ادب کا فروغ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

یوں تو پاکستان میں علم و ادب کی مجموعی صورتحال ہی خاصی مخدوش نظر آتی ہے لیکن بچوں کے ادب، خاص طور پر بچوں کے سائنسی ادب کے حوالے سے تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ملکی و سماجی سطح پر سائنسی طرز فکر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بچوں کے ادیبوں کی توجہ مذہبی ، اخلاقی اور روایتی قصے کہانیاں لکھنے پر مرکوز رہی۔ یوں تودنیا کی ادبی تاریخ ایسے بے شمار ادیب گزرے ہیں جنہوں نے نا مصائب اور مشکل ترین حالات میں صحت مند اور بامقصد ادب کے ذریعے معاشرے میں سماجی و سیاسی انقلاب برپا کئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک اور معاشرے کے مجموعی حالات و نظریات ادیبوں کی سوچ و فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں شروع سے ہی سرکاری سرپرستی میں مذہبی بنیاد پرستی کی ترویج کی بلواسطہ و بلاواسطہ کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن ضیاء دور میں ہونیوالے اسلامائزیشن کے سطحی عمل نے ملک اور معاشرے کے مقاصد اور معیارات ہی تبدیل کر کے رکھ دیئے۔ ضیاء دور سے پہلے کا پاکستان کافی حد تک روادار اور ترقی پسند تھا لیکن امریکی سامراج کے عزائم کی تکمیل کیلئے لڑی جانے والی پراکسی وار نے پاکستانی سماج میں فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کی جڑوں کو مضبوط کر کے انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسی برائیاں پیدا کیں۔ تعلیمی نصاب میں سائنسی تصورات کی بجائے مذہبی و نظریاتی عناصر کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے نئی نسل سائنسی انداز فکر اپنانے میں ناکام رہی۔ سائنس بمقابلہ ادب، سائنس بمقابلہ مذہب اور دنیا بمقابلہ دین کی دوئی (duality)نے معاشرے میں سائنسی طرز فکر کے فروغ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ بچوں کا ادب نئی نسل کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں عملی زندگی کی مناسب رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی ہمارا بچوں کا ادب جنوں، پریوں اور شہزادوں کے روایتی قصے کہانیوں کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ جن اقوام اور معاشروں نے اپنے بچوں کے علم و ادب کی بنیاد وقت کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی اور سائنسی بنیادوں پر استوار کی وہ نہ صرف منفی رجحانات سے محفوظ رہے بلکہ وہاں انسانی قدروں کے احترام اور تحمل مزاجی جیسے مثبت رجحانات کے فروغ کے علاوہ پر اعتماد انداز میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی روش پنپ رہی ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے سائنسی ادب کے حوالے سے اس لیے بھی قابل ذکر کام نہیں ہو سکا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے سائنس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں جبکہ سائنس لکھنے والے ادب کو حقیر سمجھتے ہیں۔ بچوں کے معیاری ادب تخلیق نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ بچوں کے ادیبوں کو ادیب سمجھا ہی نہیں گیا ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک طرف اردو ادب کے فروغ کے لئے بنائے گئے ادارے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنے رہے تو دوسری طرف دقیانوسی اور روایتی سوچ رکھنے والے افراد سائنس اور ٹیکنالوجی کے سرکاری اداروں کے سربراہ رہے جس کی وجہ سے نہ تو ملک میں معیاری علم و ادب کو فروغ حاصل ہو سکا اور نہ ہی معاشرے میں سائنسی طرز فکر پروان چڑھ سکا۔ پاکستانی معاشرے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے بچوں کے ادیبوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنی ادبی تخلیقات کو جدید سائنسی تقاضوں اور عملی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا چاہیے بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے بچوں کو انتہا پسندی اور تعصب و عدم برداشت جیسی مہلک برائیوں کے مضر اثرات سے آگاہی بھی دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سائنسی طرز فکر کی بجائے توہم پرستی اور اندھی تقلید کا رواج ہے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا میں نہ صرف بچوں کے سائنسی ادب پر بھی قابل ذکر توجہ دی جاتی ہے بلکہ اسکول لائف میں ہی تحقیقی پراجیکٹ کے ذریعے بچوں میں سائنسی و تخلیقی سوچ پیدا کی جاتی ہے۔ بچوں کے ادب کو سائنسی رنگ میں پیش کرنے سے بچوں کے اذہان سائنسی ایجادات و اختراعات کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ہمارے کچھ سرکاری و غیر سرکاری ادارے بچوں کے سائنسی ادب کی ضرورت و اہمیت کا ادراک کرنے لگے ہیں۔ ایک طرف اردو سائنس بورڈ بچوں کے سائنسی ادب کے فروغ کے لئے قابل ذکر خدمات سرانجام دے رہا ہے تو دوسری طرف بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے کوشاں اکادمی ادبیات اطفال اور پاکستان چلڈرن سوساءٹی جیسے ادارے قابل ذکر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اکادمی ادبیات اطفال اور پھول میگزین اب تک بچوں کے معیاری ادب کے فروغ کے چھ ادب اطفال کانفرنسیں کامیابی سے منعقد کرا چکے ہیں۔ ان کانفرنسوں کے مختلف سیشنز میں ملک بھر سے بچوں کا معیاری اور بامعنی ادب تخلیق کرنے والے اظہار خیال کے علاوہ اپنے اپنے مقالہ جات بھی پڑھتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں بچوں کے لئے معیاری ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو کو بیش قیمت ایوارڈ بھی دئیے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کانفرنسوں میں بچوں کے سائنسی ادب کی ضرورت و اہمیت پر بھی الگ سے سیشن رکھا جائے اور بچوں کا سائنسی ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں بچوں کے ادب سمیت علم و ادب کی ترویج کیلئے مربوط کوششوں کا آغاز ہوا ہے لیکن بچوں کے معیاری ادب، بلخصوص سائنسی ادب کی تخلیق کے حوالے سے بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ حکومت کے کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ قومی اخبارات کی طرح بچوں کے ادبی و سائنسی رسائل کو سرکاری اشتہارات دینا شروع کریں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بھی جدید سہولیات سے آراستہ لائبریریوں کا قیام لازمی قرار دیا جائے۔ لائبریری پریڈ میں بچوں کو معیاری سائنسی کتابوں کے مطالعے کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ میں دلچسپی رکھنے والے بچوں کو ایک ایک ہفتے کے لئے معیاری ادبی و سائنسی کتابیں گھروں میں پڑھنے کے لئے ایشو کی جائیں۔ ایسا کرنے سے گھروں میں بچوں کے کمپیوٹر اور موبائل پر قیمتی وقت ضائع کرنے کی منفی روش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ بچوں کے سائنسی ادب کے فروغ کیلئے حکومتی سرپرستی میں سائنسی ادب کی مشہور و معروف عالمی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی بچوں کا سائنسی ادب تخلیق کرنے پر توجہ دی جائے۔ قومی اور صوبائی سطح پر ہونے والی ادبی کانفرنسوں میں بچوں کے ادب پر الگ سے سیشن رکھے جائیں اور بین الصوبائی اور بین الاقوامی ادبی وفود کے تبادلوں میں بچوں کے ادیبوں کو نمائندگی ملنی چاہیے۔ حکومت کی جانب سے بچوں کے معیاری سائنسی ادب لکھنے والے ادیبوںکیلئے خصوصی مراعات و ایوارڈز کا اعلان ہونا چاہیے۔ بچوں کے سائنسی ادب کے فروغ کی راہیں ہموار کرنے کیلئے حکومتی سطح پر ادیبوں کو سائنس اور سائنسی ذہن رکھنے والے افراد کو ادب کے قریب کیا جائے۔ بچوں کے سائنسی ادب کو پرموٹ کرنے کیلئے معاشرتی سطح پر سائنسی بیانیے کو فروغ دینا ناگزیر ہے اور معاشرتی سطح پر سائنسی بیانیے کو قبولیت عامہ بخشنے کیلئے مغرب کی طرز پر معاشرے میں پاپولر سائنس کے تصور کا فروغ اشد ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button