ColumnNasir Naqvi

جسے بھی چاہو، حلال کر دو .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

کہتے ہیں بھارت میں جمہوریت بھی اچھی، حکومت بھی اچھی لیکن غریب ہے، بڑی آبادی کی دوڑ میں اب اوّل بھی آ چکا ہے۔ صحت، روزگار اور انسانی حقوق کے حوالے سے نا انصافیاں ان کا مقدر ہے۔ بے راہ روی اور جنسی ہراسگی بھی خوب ہے۔ کسی کے پاس کھانے اور سر چھپانے کی جگہ ہے کہ نہیں، اس سے قطع نظر ہر کسی کے پاس دارو اور فلمی تفریح کے لیے ٹکٹ کے پیسے ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے بھی خوب چرچے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ راج دہانی میں عام آدمی پارٹی کی کرامات سے معاملات دوسری ریاستوں سے بہتر ہیں جبکہ باقی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہو کہ کانگریس کی، حالات قابل رشک ہرگز نہیں، دہلی پریس کلب جانا ہوا تو وہاں کھانا اور پینا اچھا ہے۔ آزادی صحافت کا صرف ڈھنڈورا ہی پیٹا جا رہا ہے۔ درحقیقت یکجہتی اور قومی مفادات میں نیشنل ازم کا پرچم بلند ہے اور ردعمل میں کنٹرول صحافت کا بول بالا ہے۔ قلم مزدوروں کے حوالے سے ملکی سطح کی صحافتی تنظیمیں ناپید ہیں البتہ علاقائی اور پریس کلب کے نام پر سرگرمیاں موجود ہیں جنہیں حکومتی احکامات کا بھی پابند رہنا پڑتا ہے۔ میں نے آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک) کا تعارف کراتے ہوئے انہیں آگاہی دی کہ اس تنظیم میں سویپر سے ایڈیٹر تک تمام ملازمین کو ممبر شپ کا حق حاصل ہے۔ تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، چند لمحے خاموشی کے بعد بولے اگر آپ اپینک کے قواعد و ضوابط ہمیں بھیج دیں تو ہم بھی اس آئین کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر قسمت آزما کر دیکھتے ہیں، ہمارے پیش رو تو ایسا نہیں کر سکے۔ میں نے پاکستان آتے ہی آئین کی کاپی دہلی پریس کلب کے ایڈریس پر بھیج دی پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہی، یعنی جواب کا آج تک انتظار ہے۔ میں نے اپنے رابطوں سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہاں کی ایک سینئر صحافی نے اطلاع دی بھارت میں ایسا ممکن نہیں۔۔۔ آپ سوچیں کہ آزادی ہمارے ہاں ہے کہ وہاں؟ ہمارے ہاں تو آزادی کچھ زیادہ ہی حاصل ہے۔ ایک پی ایف یو جے نے آزادی صحافت، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کس قدر گراں قیمت خدمات انجام دیں۔ ایک سنہری تاریخ رقم ہے صرف اوراق پلٹنے کی دیر ہے، منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی ایچ راشد، عبدالقدس شیخ میدان صحافت میں جدوجہد اور اصولوں کی یادگار نظر آئیں گے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں بھی جبر، ظلم و تشدد، دھونس دھمکی، اور پکڑ دھکڑ، زباں بندی، بدترین سنسر شپ کے دور میں بھی ان سب کے بلکہ ان کے رفقاء کے پائے استقامت میں کسی بھی لمحے لرزش نہیں آئی۔ اصول پرستی اور حق سچ کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں مسعود اللہ خاں، اقبال جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور ناصر زیدی نے کوڑے کھا کر آزادی صحافت کو جِلا بخشی۔ یہ صحافتی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے لیکن نہ بکے اور نہ جھکے۔ پھر بھی ہماری صحافتی شخصیات نے جنرل ضیاء الحق کو وفاداری کا یقین دلا کر اپنے مفادات پر کارکن صحافیوں کے مفادات کو قربان کر کے 12سالہ دور آمریت میں موج میلہ کیا، اسی دور میں پی ایف یو جے کا بھی بٹوارہ کرایا گیا اور ایپنک بھی ایک سے دو ہو گئیں۔ اس مفاد پرست ٹولے میں ضیاء الاسلام انصاری، رشید صدیقی، زیڈ اے سلہری، مقبول شریف، نسیم عثمانی، محمود جعفری، مولانا اشفاق علی خان اور بہت سے دوسرے شامل تھے۔ پھر بھی منہاج برنا اور نثار عثمانی کے ساتھیوں نے اپنی شناخت قائم رکھی۔ ان میں سے صرف رشید صدیقی زندہ سلامت ہیں، باقی سب آسودہ خاک ہیں۔ اسی طرح کوڑے کھانے والے چار صحافیوں میں سے ماضی قریب میں مسعود اللہ خاں رخصت ہو چکے ہیں۔ باقی تینوں بقید حیات ہیں لیکن اب ماضی کی کہانیاں بدل چکی ہیں۔ تبدیلی، بے لگام آزادی اور قیادت کے فقدان نے مدر باڈی ایپنک کو کسی اندھیری کوٹھری میں دھکا دے دیا ہے اور پی ایف یو جے کے بچے جوان ہو کر الگ الگ دکانداری میں مصروف ہیں لہٰذا آزادی تو ہمارے ہاں ہوئی، بھارت میں تو ایک قومی سطح کی صحافتی تنظیم نہیں، یہی نہیں زبردستی کے صدر پرویز مشرف سب سے پہلے پاکستان کے قائل تھے اس لیے قوم کو آگاہی دینے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا طوفان برپا کیا پھر جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے پیمرا بنا کر بھی قابو نہیں کیا جا سکا۔ پیمرا قومی مفاد میں پابندی لگاتا اور عدالت آئین پاکستان کے تحت آزادی دے دیتا ۔ لوگ کہتے ہیں یہ کھلا تضاد ہے، پھر بھی سب چل رہا ہے۔ باقی جو بچا اسے سوشل میڈیا نے اڑا دیا۔ لہٰذا جس کا جو دل چاہے بولے خبر نہ ملے تو افواہیں اڑانے میں بھی آزاد ہیں۔ جنہیں سہولت کار ملے ہیں وہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر شور وغوغا کر رہے ہیں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس سرگرمی سے مملکت پاکستان یا پاکستانیوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے کسی کو خبر نہیں، جنہیں خبر ہے انہیں مفادات مقدم ہیں، بھلا ایسا کوئی بھارتی کر کے دکھائے؟۔ بات سے بات نکلی اور کہیں سے کہیں پہنچ گئی، پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے ایک حکومت اکثریت کھونے پر گر گئی، دوسری اکثریت کا مظاہرہ کر کے برسراقتدار آگئی۔ یہ انداز آئین و قانون اور جمہوری تقاضوں کے عین مطابق ہے لیکن ہضم اس لیے نہیں ہو رہا کہ ملک کی 75سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمیشہ منتخب حکومتوں سے طاقت ور طبقے نے ہاتھ کیا اور انہیں گھر بھیج دیا۔ اب 58(2)Bکا استعمال نہ ممکن ہو چکا ہے لہٰذا مطالبہ ہے کہ توہین عدالت کا نسخہ ایک مرتبہ پھر آزمایا جائے۔ عدالت عدالت کھیلتے ہوئے عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان مصلحت پسندی اور کسی اَن دیکھے شخصی دبائو میں مبتلا ہیں ان پر الزام ہے کہ وہ ایسا صرف اور صرف کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبوری میں کر رہے ہیں اگر ایسا درست ہے تو پھر عاشق کو تو اپنی محبت کے لیے ایک کیا ہزاروں امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ناز نخرے تو محبوب کے اٹھائے جاتے ہیں۔ عاشق کا مقدر تو ذلیل و رسوا ہونا ہی ہوتا ہے چاہے عشق کے امتحان میں کامیاب عاشق ہی کیوں نہ ہو، بہرکیف اس حقیقت سے نظریں چرائی نہیں جا سکتیں کہ پاکستان معاشی اور سیاسی بحران کے بعد تاریخ کے افسوسناک آئینی بحران میں مبتلا ہے اور ازلی دشمن بھارت ترقی کی منازل طے کر رہا ہے پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں مووی سرکار جتنے دل چاہے دعوے کر لیں، اسلحہ و بارود کے ڈھیر لگا لیں، خزانہ بھر لیں، وہاں جنتا پارٹی کی اکثریتی حکومت کے باوجود اتحادیوں کے دبائو سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، عام آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکانکی سہولت ہی نہیں، زندہ رہنے کے لیے علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں، یوں سمجھیں، دور کے ڈھول سہانے۔۔۔ وہاں بھی سب اچھا ہرگز نہیں، آپ اسے ایک محب وطن، متعصب پاکستانی کی سوچ قرار دیں تب بھی مجھے اختلاف نہیں، کیونکہ میں اسے بھی اپنا کریڈٹ ہی سمجھتا ہوں ، آپ کیا سمجھتے ہیں یقینا مجھے علم نہیں، میں تو سب اچھا ایسے ممالک کو سمجھتا ہوں جہاں حکومتی خزانے نہیں، عام آدمی کی جیب بھری ہو، ترقی و خوشحالی ہی نہیں برابری کا انصاف بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہو، پاکستان اور بھارت کا موازنہ کریں، سیاست اور معاشرہ الزامات کی گندگی کے ڈھیر سے بھرے پڑے دکھاءی دیں گے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے کہیں معاشی طور پر، کہیں مذہب و مسلک کے اعتبار سے اور کہیں صنفی استحصال کے ہاتھوں۔ میں بھارتی حالات اور معاشرتی بے راہ روی پر کچھ اس لیے مزید نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا اپنادامن اسی گندگی سے گندہ ہے لیکن میں نے بھارتی معروف شاعر راحت اندوی سے گزشتہ دنوں وہاں کے معاملات کی عکاسی کے چند اشعار سنے ہیں، ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ غیرجانبدارانہ اندازہ لگا سکیں:
جدھر سے گزرو، دھواں بچھا دو
جہاں بھی پہنچو،دھمال کر دو
تمہیں سیاست نے حق دیا ہے
ہری زمینوں کو لال کر دو
اپیل بھی تم، دلیل بھی تم
گواہ بھی تم، وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو، حرام کہہ دو
جسے بھی چاہو، حلال کر دو
اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ سرحد کے آرپار حالات مختلف نہیں، وہاں خزانہ بھرا ہے۔ حکومت نت نئے منصوبے بنا رہی ہے۔ اپنی من مانی میں، یہاں خزانہ خالی، عوام مہنگائی کے ڈسے، لیکن اشرافیہ دونوں کا تماشہ دیکھ رہی ہے پھر بھی موجیں حکمرانوں کی ہیں جب ہی تو اقتدار سے اترتے ہی الزامات کی زد میں آ کر دوسروں پر الزامات لگا کر کوئی نہ کوئی سہولت ڈھونڈ کر نجات حاصل کر لیتے ہیں اور انہیں پھر حق مل جاتا ہے جسے چاہیں حلال کر دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button