Editorial

موجودہ حکومت کی ایک سالہ احسن کارکردگی

موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، ملکی معیشت میں بہتری کے آثار سامنے آرہے ہیں۔ مثبت اشاریے ظاہر ہورہے ہیں، جو اگلے وقتوں میں ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پہلے 8ماہ میں جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی خسارہ 3.4فیصد سے کم کرکے 2.8فیصد پر لائے، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 74فیصد کمی ہوئی، تجارتی خسارے میں 36فیصد کمی ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے ایک سال کے مختصر وقت میں معاشی تباہی کے سفر کو خوش حالی کی طرف موڑ دیا ہے۔ وہ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے امور معیشت و توانائی بلال اظہر کیانی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے اتحادی حکومت کی کارکردگی پر دو خصوصی ویڈیوز جاری کیں، جن میں ایک سال کے دوران معیشت، خارجہ امور سمیت مختلف شعبوں میں ہونے والی کامیابیوں کا موازنہ پیش کیا گیا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود 1800ارب کا کسان پیکیج دیا۔ 3ماہ میں 6.9ارب کے قرض نوجوانوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار نوجوانوں کو زرعی قرضہ جات دئیے گئے ہیں۔ آئی ٹی شعبے میں نوجوانوں کو کاروبار شروع کرنے اور اسے بڑھانے کے لیے قرضہ جات دئیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مشکل ترین معاشی حالات کے باوجود وفاق نے سیلاب متاثرین میں 100ارب روپے تقسیم کئے۔ 400ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تقسیم کئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 9ماہ میں 1800میگاواٹ نئی بجلی کا نیشنل گرڈ میں اضافہ کیا۔ 74ارب روپے سے خصوصی رمضان پیکیج کے ذریعے عوام کو مفت آٹا دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے سابق حکومت کی چار سال میں لائی بدحالی کے سفر کو خوشحالی کی طرف موڑ دیا ہے۔ ریاست کے لیے سیاست نہیں ریاست ہماری ترجیح رہی ہے۔ ہم نے ریاست کے مفادات قربان نہیں ہونے دئیے۔ عمران خان کی چار سالہ غلط پالیسیوں کے باعث آج ملک میں مہنگائی ہے، ہم نے دن رات ایک کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ موجودہ حکومت ایک سال سے ماضی کا گند صاف کر رہی ہے، ماضی کی حکومت نے معیشت تباہ کی، عوام کا آٹا، چینی مہنگا کیا، روٹی، روزگار، کاروبار ختم کیا، کشمیر کا سودا کیا، پھر بھی ڈھٹائی کے ساتھ یہ نااہل نالائق ٹولہ کہتا ہے کہ میں بہت مقبول ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اپریل 2022میں جب موجودہ حکومت آئی تو اس وقت ملک کے ہر بندے کی زبان پر تھا کہ ملک چند دنوں میں دیوالیہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا کوئی آن یا آف سوئچ نہیں ہوتا، موجودہ مہنگائی ماضی کی چار سالہ غلط حکومتی پالیسوں کے باعث آئی ہے۔ 2018میں مہنگائی 3.8فیصد تھی جبکہ کھانے پینے کی مہنگائی 2.3فیصد کی تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی جو چار سال میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر گئی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت کی چار سالہ ناکام پالیسیوں اور موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا موازنہ خود عوام کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ موجودہ حکومت کی بڑی کامیابیاں ہیں، جس نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی معیشت کو استحکام دینے کی خاطر اپنے اقدامات کو جاری رکھا۔ اس کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے سر بندھتا ہے۔ بعض مشکل فیصلے بھی کرنے پڑے، جن کا بار عوام پر پڑا، لیکن مجموعی طور پر موجودہ حکومت کی کارکردگی تسلی بخش ٹھہرائی جاسکتی ہے، جو سال بھر سے بغیر کسی عالمی امداد کے ملک کا نظم و نسق احسن انداز میں چلارہی ہے۔ اس پر اس کی توصیف نہ کی جائے تو یہ ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ دیکھا جائے تو سال قبل ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں سے جہاں ملک میں مہنگائی کا بدترین سیلاب آیا، وہیں غربت کی شرح میں بھی ہولناک اضافے دیکھنے میں آئے، بے روزگاری کی شرح میں خوف ناک حد تک بڑھوتری ہوئی۔ بیرونی دُنیا سے پاکستان کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی گئیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ سابق حکمراں نے چین اور سعودی عرب ایسے دیرینہ دوستوں کو بھی ناراض کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سی پیک کے گیم چینجر منصوبے کی راہ میں رُکاوٹیں حائل کی گئیں۔ دوسری جانب ملک میں مہنگائی کے نشتر برسائے جاتے رہے۔ ناقص حکمت عملیوں اور پالیسیوں سے پاکستانی روپیہ بے وقعت ہوتا رہا۔ ڈالر روز بروز تگڑا ہوتا رہا۔ قومی خزانے میں حد درجہ کمی کردی گئی۔ معیشت کی گاڑی کو پٹڑی سے اُتار کر رکھ چھوڑا گیا۔ صنعتوں کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ موجودہ حکومت درست سمت میں قدم بڑھا رہی ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے راست اقدامات ممکن بنائے جارہے ہیں۔ ملک و قوم کی خوش حالی کے لیے سابق دور میں پیدا کی گئی خرابیوں کی درستی کی خاطر کوششیں جاری ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بہتری لائی گئی ہے۔ بیرونی دُنیا سے تعلقات کو بہتری کی شاہراہ پر گامزن کیا گیا ہے۔ دوست ممالک کے ساتھ مزید تعلقات کو مضبوطی عطا کی گئی ہے۔ اسی بناء پر دوست ممالک نے پاکستان کی معاونت کے لیے قدم آگے بڑھائے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد حکومتی اقدامات کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سنگین صورت حال کے تناظر میں مزید احسن اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ حکومتی اخراجات میں مزید کمی لائی جائے۔ سادگی اختیار کی جائے۔ ملکی وسائل پر انحصار کی رِیت ڈالی جائے۔ ملک عزیز قدرت کے بیش بہا وسائل سے مالا مال ہے۔ زراعت کا مجموعی قومی پیداوار میں خاصا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ یہ زرعی ملک ہے، یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ زراعت کے فروغ اور پیداوار میں مزید اضافے کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ کسانوں کو مزید آسانیاں فراہم کی جائیں۔ زرعی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے اُن کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ اسی طرح صنعتوں کے فروغ کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ صنعتوں کے لیے بھی حکومتی سطح پر آسانیاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے سستی توانائی کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ انڈسٹریز کے لیے سہولتیں متعارف کرائی جائیں۔ اس سے بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پانے میں خاصی مدد ملے گی۔ اسی طرح ملک عزیز کے بیشتر مقامات قدرت کے انمول تحفے گردانے جاتے ہیں۔ ایسے دلکش، خوبصورت اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والے مقامات بیرونی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سیاحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے۔ سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے اقدامات ممکن بنائے۔ بیرون ممالک کے سیاحوں کے لیے سہولتیں متعارف کرائے۔ سیاحت انڈسٹریز کے لیے بھی حکومت آسانیاں فراہم کرے۔ دوسری جانب معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے مزید احسن اقدامات جاری رکھے جائیں تو ملکی معیشت جلد استحکام حاصل کر لے گی۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کی برسی

آج شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی برسی عقیدت و احترام سے منائی جائے گی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے قوم پر بے پناہ احسانات ہیں، جن کا قرض یہ قوم کبھی اُتار نہیں سکے گی۔ گو مصور پاکستان کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے 85برس بیت گئے ہیں، لیکن آج بھی اُن کا کلام ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بہ حیثیت قوم ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اُن کی آفاقی فکر اور نظریات ہر موڑ پر ہماری بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبالؒ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے، اُسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جس کو شرمندہ تعبیر قائداعظمؒ نے کیا۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔ اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے لیے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔ بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔ وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں، آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول اُن پر نچھاور کرتے ہیں۔ ہماری قوم کا وتیرہ بن گیا ہے کہ کسی بھی خاص دن پر وہ اُس حوالے سے بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی ہے، پھر پورے سال اُس ضمن میں خاموشی رہتی ہے۔ اسی طرح شاعر مشرق کی خدمات کے اعتراف میں سال میں محض دو دن منانا اور پھر اُنہیں فراموش کردینے کی روش اختیار کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔ اقبالؒ دراصل ایسے لافانی فلسفے، فکر اور نظریات کا نام ہے، جس نے سوچ کے کئی دروا کیے۔ ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پرچار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہیے۔ افسوس اُن کی آفاقی فکر کا عملی اطلاق ہم اپنے سماج پر اتنے سال بیت جانے کے باوجود صحیح معنوں میں نہیں کر سکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وطن عزیز میں ہر سُو خرابے ہی خرابے نظر آتے ہیں اور آج ہم بہ حیثیت قوم و ملک پستیوں کی جانب گامزن ہیں۔ کون سی بُرائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں عیاں نہیں اور ان میں روز بروز اضافہ نہ ہورہا ہو۔ ایسے دگرگوں حالات میں ضروری ہے کہ اقبال کے فلسفے، افکار اور نظریات کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا جائے۔ اُن سے معاشرے کے ہر فرد کو صحیح طور پر روشناس کرایا جائے۔ اُن کے تصورات کو معاشرے کا ہر فرد نا صرف سمجھتا ہو بلکہ اُن پر عمل پیرا بھی ہو۔ حکمراں بھی محض اُن سے جذباتی وابستگی کا اظہار نہ کریں بلکہ اُن کے لافانی نظریات پر عمل کرکے دِکھائیں۔ بلاشبہ ملک و قوم اقبال کے نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہوکر ہی ترقی کی معراج کو پہنچ سکتے ہیں۔ غرض اُن کی آفاقی فکر کی پیروی میں ہی ہماری فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button