Ahmad NaveedColumn

کاش عمران خان کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوتی! .. احمد نوید

احمد نوید

کتنا اچھا ہوتا اگر عمران خان کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوتی اور وہ ہمیشہ لنگڑا کر چلتے ۔ یہ نئی علامت اُنہیں عالمی سطح پر مزید شہرت سے ہمکنار کرتی ۔ وہ پاکستان میں جہاں بھی جاتے ، یا بین الاقوامی دوروں پر ہوتے تو لنگڑا کر چلتا دیکھ کر سب یہی کہتے کہ یہ وہ خان ہے، جس پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور وہ حملہ اپنی ایک نشانی چھوڑ گیا ہے ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر خان صاحب کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوتی اور وہ لنگڑا کر چلنے پر مجبور ہوتے ، تو وہ یقینا ایک نئے لیڈر ہوتے ۔ حکمرانوں ، سیاسی رہنمائوں کی زندگی اور سوچ میں تبدیلی صرف قاتلانہ حملوں سے ہی نہیں آتی بلکہ اقتدار کا چھن جانا بھی اکثر اوقات رہنمائوں کو تبدیل کر دیتا ہے۔ 2018میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو اُس وقت اُن کی کابینہ کے بہت سے وزیروں کے لب و لہجے تکبر اور غرور سے بھرے ہوئے تھے ۔ خود عمران خان کا بھی زیادہ وقت اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ او ر اُنہیں بُرا بھلا کہنے میں گزرا۔ یہ ملک جو 75سال سے ترقی ، خوشحالی اور کرپشن کے خاتمے کو ترس رہا ہے۔ تبدیلی کو ترستے اِس ملک نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی تبدیلی نہ دیکھی ۔ عمران خان جنہیں اپنے وزراء کی عیاشیوں فضول خرچیوں کا نوٹس لے کر اُنہیں نہایت سادہ زندگی اور سادہ طرز حکومت اختیار کرنے پر قائل کرنا چاہیے تھا۔ وہ اُس میں ناکام رہیں۔ خان صاحب نے خود بھی اپنے دور اقتدار میں سادہ زندگی اور طرز حکومت اختیار نہیں کی۔ کئی کروڑ روپے جو اُن کے ہیلی کاپٹر کے پٹرول میں اُڑ گئے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ بچائے جاتے اور خان صاحب حقیقی اور عملی طور پر اُس فلسفے کا اظہار کرتے ، جن کا وہ اکثر تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ خان صاحب بہت اچھی اور انقلابی باتیں کرتے ہیں مگر اُس پر عمل نہیں کرتے، یہ اُن کی کرشماتی شخصیت کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔
عاشق کا خط ہے پڑھنا ذرا دیکھ بھال کے
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
خان صاحب پر 2018میں جو ذمہ داری عوام نے ڈالی تھی ، خان صاحب اُسے دیکھ بھال کر پورا کرنے میں ناکام رہے ۔ خان صاحب کی قسمت بہت اچھی ہے کہ پی ڈی ایم نے ایک سال قبل اُن کی حکومت گر ا کر اُنہیں نئی زندگی عطا کر دی ، ورنہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی مدت پوری کرتی تو اکتوبر میں اُس کی جیت کے چانس بہت کم ہوتے ۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کی بدقسمتی کہ اکتوبر 2023کے انتخابات میں اگر اُس نے اچھے مارجن کے ساتھ جیتنا تھا۔ اب وہ جیت نا ممکن دکھائی دینے لگی ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کی آدھی جیت ہے۔ آدھی انتخابات کے انحصار پر منحصر ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اب ہوا کا رُخ پھر بدلنے لگے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ خان صاحب کے ساتھ نرم روئیے اختیار کرنے کا سوچنے لگے۔ ملکی معاشی معاملات ، سیاسی رسہ کشی حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں کے اندر گروپ بندی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے سامنے دیوار بن رہے ہیں ۔ بھارت کے وزیراعظم مودی سمیت دنیا کے دیگر رہنمائوں کو بھی پاکستان پر باتیں کرنے کے مواقع مل رہے ہیں ۔ اتنی نازک صورت حال پر عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان میں اُن کا مستقبل کیا ہوگا ۔ آج عام آدمی کے ذہن میں یقینا یہ بات موجود ہے کہ پاکستان شائد اُن کیلئے نہیں بنایا گیا تھا ۔ پاکستان چند اعلیٰ عہدوں ، اور غالباً سیاسی اشرافیہ کیلئے بنایا گیا تھا ۔ کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران صرف ایک ہزار روپے ملنے کی آس پر لمبی قطار میں کھڑی کئی غریب عورتیں اور بچیاں اگر بھگدڑ میں کچلی جاتی ہیں۔ روندی جاتی ہیں ، پیروں تلے آکر ہلاک ہو جاتی ہیں تو یقینی طور پر یہ سوال ذہنوں میں اُٹھتا ہے کہ پاکستان شائد اِن غربا کیلئے نہیں بنا تھا۔ لاکھوں لوگوں نے 2018میں یہی سوچا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور خان صاحب اِسی تبدیلی کیلئے آئیں ہیں۔ وہ پاکستان کو بدلیں گے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ حالیہ دو صوبوں کے انتخابات اور اکتوبر میں ہونے والے باقی انتخابات کے بعد اگر پاکستان تحریک انصاف دوبارہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آجاتی ہے اور عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو کیا عمران خان وہی عمران خان ہونگے یا لوگ اُن کی ذات اور شخصیت کو بدلا ہوا پائیں گے۔ خان صاحب کی جو عمر ہے اُس عمر میں لوگ عام طور پر بدلتے نہیں ہیں۔ عادتیں ، اطوار، مزاج، سوچیں پختہ ہو جاتی ہیں، لیکن اگر خان صاحب اپنے آپ کو بدلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ پاکستان کو بھی بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں اس بات کے تذکرے میں بھی کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے کہ آج پاکستان میں نہایت اہم عہدوں پر براجمان شخصیات کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی پسند نہ پسند اور ذاتی خواہشات سے ماوراء ہو کر پاکستان کیلئے سوچیں ۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز ایک دوسرے کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں۔ ملک میں ایسی مثالیں کم ہی دیکھی ہیں۔ اتنے بڑے عہدوں پر بیٹھنے والی شخصیات کو کبھی پرسنل نہیں ہونا چاہیے۔ آج حالات انتہائی سنجیدہ اور پریشان کن ہیں۔ لگتا ہے جیسے سیاسی رہنما اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز پاکستان اور آئین کی نہیں بلکہ ذاتی لڑائیاں لڑ رہے ہیں ۔ ملک کی اس خراب صورت کو دیکھ کر ہی دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش عمران خان کی ٹانگ ٹھیک نہ ہوتی اور وہ لنگڑا کر ہی چلتے رہتے، مگر نظام کو سیدھا کر دیتے۔ مہاتیر محمد کی سیاست پر پورا کالم لکھا جا سکتا ہے ۔ فی الحال اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ وہ ایک ڈاکٹر تھا اور سیاست میں آیا تھا ۔ مہاتیر محمد نے ملائشیا کو 1990میں ایشیا کی بہترین اور مضبوط معاشی اور اقتصادی ریاست میں تبدیل کیا تھا۔ وہ تبدیلی اور ترقی لوگ آج تک نہیں بھولے اور مہاتیر محمد 97سال کی عمر میں بھی گزشتہ سال تک ملائشیا کے وزیراعظم تھے۔ عمران خان سپورٹس مین رہے ہیں، اگلے پچیس سال تک وہ ایسے ہی تندرست اور توانا رہیں گے۔ اس بار اگر حکومت بننے پر وہ پاکستان کیلئے کچھ کر گزرتے ہیں۔ اگلے پچیس سال اُن کے پکے ہیں۔ تاہم اس بار اُنہیں اپنی اچھی اور انقلابی باتوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button