ColumnTajamul Hussain Hashmi

سبسڈی کو بند کریں .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

چند دن پہلے جناب رئوف کلاسرا صاحب کا کالم پڑھ رہا تھا کالم اپنی جگہ لاجواب تھا لیکن اس کالم کے چند الفاظ انتہائی خوب صورت تھے، اپنے قارئین سے بھی شیر کرنا چاہوں گا، ’’ میرا حالات کی خرابی میں کتنا ہاتھ ہے یا میں کتنا ٹھیک کر سکتا ہوں، آپ کے بس میں صرف ایک ہی چیز ہے کہ آپ کی وجہ سے اس ملک، فرد یا معاشرے کو نقصان نہیں پہنچے، آپ کا اتنا حصہ بھی بہت ہے کہ آپ نے ملک کا نقصان نہیں کیا، یہی تسلی دل کے لیے کافی ہے‘‘۔ یہ چند لائنز انتہائی اہم اور سکون طلب ہیں، جو حالات اس وقت سیاسی حلقوں میں چل رہے ہیں، اس میں قوم کا کیا قصور ہے، قصور وار تو وہی ہیں جو حکمران یا پھر طاقتور ہیں، جو اپنے مفادات کے لیے مفاہمت کی پالیسی یا پھر جمہوری بن جاتے ہیں، یا پھر اپنی جھوٹ پر مبنی تقریروں کو سیاسی کہہ کر عدالتوں سے کیس معاف کروا لیتے ہیں، سپریم کورٹ کے بینچ کے خلاف کتنا طاقتور بیانہ چلایا جا رہا ہے، فنڈز کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے، اسی کو تو پاور کہتے ہیں۔ سیدھا سادہ معاملہ تھا اتحادی جماعتوں نے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، جس میں ان کو کورٹ کے آرڈر کے بعد ناکامی کا سامنا ہوا، اتحادی جماعتیں پنجاب حکمرانی چاہتی ہیں تو یہی اچھا موقع ہے، الیکشن کروا دیں اور اپنی حکومت بنا لیں، ملک میں جمہوریت ہے، حکومت کے بنتے ہی بینکوں نے 30ارب سٹہ بازی سے لوٹے لیے، قائم کمیٹی کی رپورٹ کو بھی ابھی تک پبلش نہیں کیا گیا، شوگر انڈسٹری میں موجود مافیا ڈیلروں کو کب پکڑیں گے ٹنوں کے حساب سے چینی افغانستان بلیک کر رہے ہیں، حکومتوں میں بیٹھے افراد حکومتوں کو بلیک میل کر کے عوام کا استحصال کرتے ہیں، ٹنوں کے حساب سے گندم ذخیرہ کرتے ہیں، اداروں پر قبضہ مافیا کا کنٹرول میں اضافہ ہو رہا ہے جب بھی ملک میں سیاسی افراتفری ہوئی طاقت وار افراد نے عوام کو لوٹنا شروع کر دیا تاریخ گواہ ہے کہ ایسی وارداتیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں، آئین کی عمل داری کو یقینی بنانے والے بھی اختلافات، سیاست کا شکار نظر آتے ہیں، چند لاکھ طاقتور لوگ کے ہاتھوں کروڑوں لوگوں نعروں اور تبدیلی کے چکر میں تفریق کا شکار ہیں، پاکستان کے ابتدائی ایام میں بھی روٹی کپڑا اور مکان جیسے مسائل تھے۔ 1953کی بات ہے جب محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم کی سیٹ ملی تو ملک میں گندم کی کمی تھی۔ امریکہ میں پاکستان کی طرف سے سفیر کی ڈیوٹی پر مامور تھے، ان کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ محمد علی بوگرہ کے دور میں امریکہ نے گندم کا جہاز بھیجا تو جناب خود گندم اوٹنوں پر لاد کر شہر
لائے، اوٹنوں کے گلے میں تھینک یو امریکہ کے پوسٹر لٹکائے گئے تھے، یہ تو ماضی ہے، آج وزیر خزانہ اسحاق دار کہ رہے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے رکن ہیں، کوئی بھکاری نہیں ہیں، یہ سب سن کر عوام میں خوشی کی لہر ڈور گئی، نہیں جناب ایسا نہیں ہے مہنگائی سفید پوش گھرانوں کو بھی فقیری تک لے آئی ہے۔ آپ کے نعروں سے کام چلنے والا نہیں ہے ، بحرانوں کا قصور وار عمران خان تھا لیکن پھر یہ بھی سچ ہے کہ قابل ٹیم، تجربہ کار کابینہ اور وزیر خزانہ کے دعوے بھی بحرانوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، میاں شہباز شریف کے 18گھنٹے کام کے دعوے ناکام ہو گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو 11ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، اسمبلی میں بل پاس کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اپوزیشن لیڈر خاموش ہیں، مہنگائی اور عوام کی حمایت میں کوئی بیان نہیں، اسمبلی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے بینچ کے فیصلہ کو مسترد کر دیا گیا ہے، کوئی مخالف آواز اسمبلی میں نہی سنی گئی، عوامی خدمات کو اپوزیشن کیسے روک سکتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے سستے آٹے کا اعلان، سندھ حکومت کی طرف سے آٹے کے مد میں پیسے دینا احسن اقدام ہے، کون کہتا ہے خدمات نہیں ہونی چاہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں آٹے کی تقسیم کے دوران 11سے زیادہ لوگوں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی سبسڈی کی پالیسیوں میں لوٹ مار اور کرپشن موجود ہے، ویسے سندھ حکومت کی پلاننگ کو داد دینی چاہئے جو انہوں نے آٹے کی فری تقسیم میں ہاتھ نہیں ڈالا، عوامی تنقید اور انتظامات کی کمی سے عوامی ردعمل کا اندیشہ تھا یا بہتر کیا کہ غریب عوام کو پیسے ان کے اکائونٹس؍ شناختی کارڈ میں منتقل کر دئیے، آٹے کی فری سپلائی کے چکر میں فلور ملز مالکان کو سبسڈی اور اداروں میں موجود سرکاری چوروں کو کھولا موقع مل جاتا ہے، سبسڈی کے چکر میں کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے دولت کی تقسیم میں عدم مساوات پیدا ہوتی ہے، پہلے ہی ملک دولت کی غیر مساوی تقسیم کا شکار ہے، سیاسی تاجر مافیا کا منشور عوام کو لوٹنا ہے، سیکرٹری خوراک زمان وٹو نے پنجاب کے دو شہروں میں کارروائی کر کے 28ہزار شوگر بیگز جن کی مالیت کی قریب 20کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔ برآمدی مافیا کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے، چینی افغانستان سمگل کی جانی تھی، بی بی سی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ اور پنجاب سے چینی سمگل ہو رہی تھی کیوں افغانستان میں چینی کا ریٹ 193روپے کلو مل رہا تھا، سمگلنگ کی وجہ سے 95روپے ملنے والی چینی 120روپے میں مل رہی ہے، پنجاب کے چار اضلاع لاہور، قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ میں فری آٹے کے 5226647 لاکھ بیگ ایک ماہ میں تقسیم کئے گئے ہیں، ان چاروں اضلاع کی آبادی 2017کی مردم شماری کے مطابق تقریبا 19391666کروڑ سے زائد ہے اور تقسیم کئے گئے آٹے کے تھیلوں کی تعداد 5226647لاکھ ہے ، فی فرد کے حصہ میں تین کلو آٹا آتا ہے، سرکاری گوداموں سے گندم کی سپلائی اور آٹے کی سپلائی میں بھی شکایات ہیں، اگر حکومتیں ٹیکنالوجی پر کام کرتیں، افراد کی آمدن کے حوالے سے ان کے پاس مکمل ڈیٹا ہوتا تو آج ملکی صورت حال کافی مختلف ہوتی، سبسڈی کی پالیسی کو سب سے پہلے بند کرنا چاہئے، لوٹ مار کرنے والے سیاسی تاجروں کی سبسڈی والی دکان بند ہونی چاہئے ، حکومت کو عوامی خدمات کے لیے دوسرے طریقے استعمال کرنے چاہئیں، جس سے کرپشن لوٹ مار میں کمی ہو گی لیکن حکومت کی ترجیحات ابھی بھی خدمات نہیں، اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہے ، تاجروں کو سبسڈی اور علاقائی وڈیروں کو کنٹرول میں رکھنا ضروری اس لیے ہے کہ ان کو ووٹ چاہئے، اس سوچ نے تقسیم میں اضافہ کیا ہے، سیاسی جماعتیں حکومت ختم ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، اس تنقید سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی عوامی کارکردگی پر یقین نہیں ہے، حکومتیں میں رہنے کے لیے ان کو اداروں کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کیوں عوام کا اداروں پر پکا یقین ہے کہ مشکل حالات میں وہ ان کے مسیحا ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button