ColumnNasir Naqvi

خواب، خواہش اور لوگ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

لوگ کہتے ہیں کہ خواب نہیں دیکھتے، خوبصورت اور جن کی خواہش کوئی نہ ہو، وہ کیا خاک جیتے ہیں۔ زندگی بلکہ اچھی زندگی کے لیے سہانے خواب اور خواہش بنیاد ہوتے ہیں پھر بھی سیانے کہتے ہیں خواب، خواہش۔۔۔۔۔ جتنے کم ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے اس میں کیا کوئی بھی شائد واقف نہ ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ خود جانتے ہیں صرف یہی نہیں، آپ اپنے وسائل اور مسائل سے اّچھی طرح آشنا ہیں اور آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے مسائل کے جنجال خانے میں سب سے بڑا عمل دخل خوابوں اور خواہشوں کا ہے۔ اگر صبر و تحمل سے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے تو یقینا مسائل میں اس طرح نہ الجھتے جیسے پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر شخص خواب بھی دیکھتا ہے اور خواہش کو بھی پالتا ہے، لیکن کہیں نہیں لکھا کہ سب کچھ اسی طرح پورا ہو گا جیسے آپ سوچتے ہیں۔ خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے محنت اور کوشش بھی ایک بڑی بنیاد ہے یہی نہیں، خواہشوں کے مطابق آگے بڑھنے اور ترقی کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے ورنہ بات ’’ خیالی پلائو‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ پھر ناکامی پر ماسوائے مایوسی کے، کچھ نہیں ملتا۔ آپ اپنے اردگرد لوگوں کا جائزہ لیں، دوست احباب، عزیز رشتہ دار جسے ملا، اس کی منصوبہ بندی اور کوشش نمایاں ہوگی اسی طرح جنہیں کچھ نہیں ملا انہوں نے تاریخی کردار ’’ شیخ چلی‘‘ کی طرح خواب دیکھے، خوب دیکھے، دل میں خواہش بھی پالی لیکن اس کی عملی کارکردگی صفر ہو گی اگر نہیں تو وہ مستقل مزاج ہرگز نہیں ہوگا، پل میں تولہ، پل میں ماشہ، ایسے لوگوں سے ناکامی کی وجہ دریافت کریں تو بھی ان کا گلہ شکوہ قسمت اور اللہ سے ہی ہو گا کیونکہ وہ اپنے آپ کو ’’ پرفیکٹ‘‘ سمجھتا ہے اسے سمجھانے کی کوشش کریں کہ فلاں دوست اور رشتہ دار تیرے ساتھ تھا لیکن وہ تو بہت آگے نکل گیا؟ فوراً جواب ملے گا وہ جو کچھ کرتا ہے وہ ہم نہیں کر سکتے اور زیادہ زور دیں گے تو سیکڑوں غیب گنوا دے گا ، اپنے گریبان میں جھانکنے کو کبھی تیار نہیں ہو گا، وہ اپنی عبادات، صدقہ خیرات کی بات بھی کرے گا اور دوسروں سے حسد بھی کرے گا، نہیں کرے گا تو اپنا احتساب، وہ جانتا ہے کہ حدیث مقدس ہے کہ ’’ اعمالوں کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ پھر بھی اسے اپنی نیت کی فکر نہیں، وہ کامیاب لوگوں کی نیتو ں پرنہ صرف شک کرے گا بلکہ ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گا، بلاسوچے سمجھے کہ اس کی اس عادت نے ہی اسے کہیں کا نہیں چھوڑا؟۔ میں نے اسی تناظر میں متقی پرہیز ہی نہیں، دنیاوی کامیاب لوگوں سے بھی پوچھا کہ حضرت انسان کی فطرت میں ’’ خواب اور خواہش‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہیں، یقینا آپ بھی آدم زادے کی حیثیت سے بہت سی خواہش رکھتے ہوئے خواب دیکھتے ہوں گے، آپ ماشاء اللہ خوشحال اور کامیاب لوگوں میں شامل ہیں، کیا خواب بر آئے کہ آپ کی جدوجہد اور محنت رنگ لائی کہ کامیاب ہو گئے، اس میں قدرتی معجزہ کتنا ہے اور آپ کی کوشش کا عمل دخل کتنا ہے؟۔ ایک صاحب بولے’’ انسان بڑا زور آور ہے وہ اپنے آپ سے بھی لڑتا ہے اور اپنے رب سے بھی، وہ یہ نہیں سوچتا کہ صحت، تندرستی والی زندگی سے بڑی نعمت کوئی نہیں، وہ صرف اس کا گلہ کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں، وہ اس قدر خود سر ہے کہ اس کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ زندگی کو حسین بنانے کے لیے اللہ کی دی ہوئی طاقت کو جائز اور احسن طریقے سے استعمال کرے، کرتا وہ من مانی ہے اور شکوہ مالک کائنات سے کرتا ہے کہ اسے بہت کچھ دیا مجھے وہ کچھ کیوں نہیں دیا، حالانکہ اس نے اسی دنیا میں فقیر کو بادشاہ اور شہنشاہوں کو گدا بھی بنتا دیکھا۔‘‘ دوسرے صاحب سے پوچھا ’’ جناب، آپ کے خواب اور خواہش پوری ہوئیں کہ نہیں، جی رہیں، اس لیے کہ دنیا میں آئے ہیں؟‘‘، کہنے لگے ’’ ہم جس خاندان کے چشم و چراغ ہیں، وہا ں خواب تھے نہ خواہشیں، البتہ ہمارے بزرگوں کا ایک ہی خواب ’’ پاکستان‘‘ تھا۔ وہ پورا ہوا، اس نے پہچان بھی دی اور شان بھی۔ بہت کچھ مل گیا آزادی کے ساتھ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دھرتی کے لیے لڑنے مرنے والے چلے گئے، اور ایسی اولاد چھوڑ گئے کہ وہ اب بھی لڑ مر رہی ہے‘‘، کہتے ہیں ’’ حقیقی آزادی چاہیے‘‘ خود جہاں ہے، جیسے ہے کی بنیاد پر لوٹ رہے ہیں اور دوسرو ں کو چور ڈاکو اور کرپٹ کہتے نہیں تھک رہے، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، غریب مار ہو رہی ہے اور ہم سب تماشائی بنے ہوئے تالیاں اسی طرح بجا رہے ہیں جیسے ’’ مداری‘‘ کا تماشہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اب تو کوئی یہ بھی جاننے اور بتانے والا نہیں کہ اس ’’ دھرتی ماں‘‘ کے لیے ہم کیسے بے سرو سامان ہو کر خون کی ندیاں عبور کر کے آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے۔ اب تو صرف یہی سوال ہیں کہ ’’ خواب اور خواہش‘‘ پوری ہوئی کہ نہیں، تقسیم ہند بیک وقت ہوئی پھر بھارت آگے نکل گیا اور پاکستان کیوں پیچھے رہ گیا۔ بنگلہ دیش ہم سے جدا ہو کر خوشحال کیسے ہو گیا؟ عام آدمی تو یہ سوچتا ہے لیکن خاص لوگ اس لیے نہیں سوچتے کہ پھر انہیں کچھ کرنا پڑے گا۔ ممتاز شاعر انور مسعود کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جو کچھ بنایا جاتا ہے اسے کھاتے ہیں، پاکستان بھی رمضان المبارک میں بنا لہٰذا سب بلا امتیاز اسے کھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ الحمد للہ خواب اور خواہش کے باوجود اللہ نے جتنا دیا اتنی ہماری اوقات نہ تھی۔ خدا اس سرزمین پاک کی حفاظت کرے اس لیے کہ ہم تو اپنے قومی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے اس کی بنیادیں اکھاڑنے میں مگن ہیں۔ تیسرے صاحب بڑے دلچسپ تھے، مسجد کی جانب سے تیز تیز قدم بڑھاتے دیکھے تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کر دئیے ’’ جناب کیسے ہیں، آپ نے کبھی خواب دیکھے، خواہشیں کیں کہ زندگی مصلحت پسندی میں ہی گزر رہی ہے؟ بڑے چہک کر بولے ’’ اللہ مہربان تو گدھا پہلوان ‘‘ ۔۔۔۔۔ ہمیں مالک نے تمام جانوروں سے افضل بنایا، سوچنے سمجھنے کے لیے عقل بھی دی لیکن اکثر لوگ گدھے ہی ہیں۔ مال برداری میں لگے ہوئے ہیں، زندگی کو بھی بوجھ ہی جانتے ہیں پھر گدھے ہی ہیں نا۔ ان میں انسانوں والی کونسی بات ہے؟ انسان تو دوسر ے کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے ایک دوسرے سے سبق سیکھتا ہے لیکن یہاں تو سب اپنی اپنی دوکان چلانے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں نے لقمہ دیا ’’ جناب خواب اور خواہش‘‘ کا بتائیں؟ فرمانے لگے ’’ نہ خواب، نہ خواہشیں‘‘ کبھی تھیں اب بالکل نہیں، ایک روز کا واقعہ ہے کہ مجھے کسی نے یہ شعر سنا یا۔۔۔
کمال کا طعنہ دیا آج مسجد میں خدا نے
مانگنے ہی آتے ہو کبھی ملنے بھی آیا کرو
اور میری زندگی بدل گئی، نہ خواب بچے اور نہ خواہشیں، پہلے کی طرح مسجد جاتا ہوں، لوگوں کا حال سنتا ہوں، مانگنا چھوڑ دیا۔ جو ملا ہے اس کا شکر بجا لاتا ہوں، میری دنیا پہلے جیسی ہرگز نہیں، وارے نیارے ہیں، خواب اور خواہشوں کی ضرورت ہی نہیں رہی، کوشش ہے کہ دوسروں کے لیے ’’ جیوں‘‘۔۔۔۔۔ اللہ آسانیاں پیدا کر دیتا ہے، ’’ موج میلہ‘‘ جاری ہے۔ اگلی منزل کی فکر ہے ، جب آواز پڑی چلے جائیں گے نہ شکوہ نہ گلہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button