ColumnImtiaz Aasi

سیکیورٹی اداروں کی کامیابی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

قدرتی خزانوں سے مالا مال بلوچستان کی تاریخ شورشوں سے بھری ہے۔ کالعدم بلوچ تنظیم بی ایل اے کی سرگرمیوں کا آغاز ملک کے وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہو گیا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں دفاع، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس ہونے تھے بقیہ تمام امور صوبے کے پاس رہنے تھے۔ وفاق کا معاہدے سے انحراف بلوچستان میں شورش کا موجب بن گیا۔ بی ایل اے کی بنیاد کوہلو سے تعلق رکھنے والے بلوچ شیر محمد مری نے رکھی وہی بی ایل اے کا کمانڈر تھا۔ شیر محمد مری کی موت کے بعد بی ایل اے کی کمانڈ خضدار سے تعلق رکھنے والے زہری قبیلے کے نوروز خان نے سنبھال لی۔ سکندر مرزا کے دور میں ون یونٹ بننے کے بعد بلوچستان کی صوبائی حیثیت ختم ہو گئی ۔ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو بی ایل اے کے لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے، حکومت نے کلام پاک پر حلف دے کر بی ایل اے سے تعلق رکھنے والوں کو پہاڑوں سے اتارنے کے بعد نوروز خان کے دو بیٹوں سمیت پانچ لوگوں کو پھانسی دے دی اور نوروز خان کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ خان آف قلات سردار احمد یار خان کو اسی دور میں قید کرکے ضلع جہلم میں کلرکہار کے مقام پر تیرہ سال قید میں رکھا گیا۔ سردار احمد یار خان کی موت کے بعد سرداری اس کے بیٹے دائود جان کو ملی۔ دائود جان کی وفات کے بعد قلات کے امور کی سربراہی اس کے بیٹے میر احمد سیلمان کو دے دی گئی، جو آج کل لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بلوچستان میں بی ایل اے کی ہم خیال بہت سی تنظیموں نے سر اٹھا لیا، جن میں بی ایل ایف اور بی آر اے قابل ذکر ہے۔ کسی قبیلے کے سردار کے چار بیٹے ہیں تو ان چاروں نے الگ الگ تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی ریاست قلات، خاران، لسبیلہ وغیرہ برطانوی تسلط میں تھیں۔ قائد کی کاوشوں سے ان ریاستوں کا الحاق مملکت خداداد کے ساتھ ہوا۔ خان آف قلات نے ریاست کا پاکستان سے الحاق کرتے وقت بانی پاکستان کو ترازو میں ایک طرف اور دوسری طرف سونا رکھتے ہوئے پاکستان سے رشتہ جوڑ ا تھا۔ جو حکومت اقتدار میں آئی خواہ وہ آمریت کا دور تھا یا جمہوری، سب ادوار میں بلوچستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالنے کی بجائے
فوجی آپریشن کے ذریعے شورش کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں ابھی تک کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔1970 میں فوجی آپریشن کے خاتمے کے بعد منتخب حکومت کو اقتدار ملا تو سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جس کے بعد صوبے کے حالات معمول پر آگئے۔ بھٹو دور میں میں آپریشن ہوا تو حالات کی خرابی سے دشمن ملک کو باغیوں کی پشت پناہی کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا۔ بلوچستان کے باغیوں کو کچھ نہ کچھ پشت پناہی افغانستان کی ضرور حاصل رہی ۔ افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔ ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں کی جتنی تعریف کریں کم ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا کمال تھا جو بھارتی جاسوس کلبوشن کو بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق خفیہ ایجنسیوں نے کالعدم بلوچ تنظیم کے بانی گلزار امام کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ شخص کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کا بانی اور رہنما ہے جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بی این اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے وجود میں آئی تھی۔ بلوچ نیشنل آرمی درجنوں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ گلزار امام براہمدغ بگٹی کا نائب رہ چکا ہے۔ گلزار اما م کے افغانستان اور بھارت کے دورے ریکارڈ پر ہیں، جسے بڑی کامیاب منصوبہ بندی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ گلزار امام کی گرفتاری بلوچستان کی دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ دراصل بلوچستان کے عسکریت پسندوں کے افغانستان اور بھارت کے ساتھ روابط میں کوئی شک شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات کے پس پردہ بھارت اور افغانستان ملوث ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ ہے تو افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کا تنازع کھڑا کر رکھا ہے۔ درحقیقت بلوچستان کے قدرتی وسائل پر دنیا نظریں جمائے ہوئے ہے۔ گوادر کی تعمیر تو دشمن ملکوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کے پوری طرح فنکشنل ہونے کے بعد دنیا بھر سے سازوسامان کی آمدورفت کے دروازے کھلنے سے ہمارا ملک کثیر سرمایہ کما سکے گا، بندرگاہ کے دو چار برتھ فنکشنل ہونے سے دیگر ملکوں کے بحری جہازوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ عشروں سے بند رہنے والا ریکوڈک کے منصوبے پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات او ر وہاں اٹھنے والی شورشوں کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ صوبہ قیام پاکستان سے اب تک پسماندہ ہے ۔یہ تو جنرل پرویز مشرف کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ گوادر کے منصوبے کو شروع کیا گیا۔ بلوچستان میں ترقی ہو جاتی ہے تو عسکریت پسندی سر نہ اٹھاتی سیاسی حکومتوں میں کوئی ایک حکومت ایسی نہیں گزری ہے جس نے بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے ہم پلہ کرنے کے لئے اقدامات کئے ہوں۔ نواز شریف، بے نظیر بھٹو سے لے کر عمران خان کے دور تک صوبے میں بہت سے منصوبوں کا اعلا ن کیا گیا مگر عملی طور پر یہ منصوبے فائلوں میں پڑے رہنے سے بلوچستان ترقی سے ابھی تک محروم ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو تمام صوبوں سے پسماندہ صوبے کی ترقی کے لئے سنجیدگی سے کوششوں کی ضرورت ہے۔ صوبے کی پسماندگی کا یہ عالم ہے چاغی جیسا مقام جہاں سینڈک کا منصوبہ اور ریکوڈک دونوں ہیں، لوگوں کے لئے پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ سردار اختر مینگل کے آبائی علاقے میں سڑکوں کا فقدان ہے پورے علاقے کے لوگوں کے پینے کے پانی کے لئے ایک کنواں ہے۔ بہرکیف بلوچستان کو ترقی کے معاملے میں دوسرے صوبوں کے ہم پلہ کئے بغیر دہشت گردی کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔ ہم بلوچستان میں دہشت گردی کی بات کرتے ہیں لیکن ان عوامل کا پتہ چلانے کی کوشش نہیں کرتے جن کی وجہ سے دہشت گردی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ قائد اعظمؒ اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا تو بلوچستان میں شورش کبھی سر نہ اٹھاتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button