Editorial

انتباہ کی سیاست ؕ!

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چھبیس نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کیا ہے، اگلا لائحہ عمل کا اُسی روز اعلان کیا جائے گا، دوسری طرف وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کے پاس آخری موقعہ ہے ،اگر آرمی چیف کی تعیناتی پر کوئی گڑبڑکی تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ ایک روز قبل ہی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا شہ سرخیوں کی زینت تھا کہ آرمی چیف کی تقرری سے متعلق وزیراعظم کی ایڈوائس آئی تو اس پر عمل کریں گے اور ان کے پاس وزیراعظم کی ایڈوائس روکنے کا قانونی اختیار نہیں اور نہ ہی اُنہوں نے کبھی مملکت کے معاملات میں رخنہ ڈالاہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی صدر مملکت سے آئینی معاملات کے متعلق ملاقات کی تھی اور انہیں وزیراعظم شہبازشریف کا پیغام پہنچایا تھا، پس اگلے ہی روز ایک طرف عمران خان نے راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ کا اعلان کردیا تو دوسری طرف وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا صدر مملکت کو انتباہ بھی سامنے آگیا جس سے شائبہ ہے کہ معاملات میں ابھی بھی کچھ ایسا ہے جس کو کم ازکم ٹھیک تو نہیں کہا جاسکتا۔ دیکھا جائے تو اتحادی حکومت کو عمران خان کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے مشکلات اور دبائو کا سامنا ہے اور بلاشبہ عمران خان مسلسل دبائو بڑھارہے ہیں اور اِن کا دبائو بھی کہیں نہ کہیں محسوس کیا بھی جارہا ہے، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی عہدہ صدارت سے قبل تحریک انصاف میں شامل تھے لہٰذا اُن کا اپنی پارٹی کے فیصلے یا مطالبے سے متفق ہونا فطری عمل نظر آتا ہے۔ صدر مملکت کی گفتگو کہ وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر من و عن عمل کریں گے، کے بعد محسوس کیا جارہا تھا کہ آنے والے دنوںمیں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری سی صورت حال میں کمی دیکھنے کو ملے گی مگر وزیر خارجہ کے انتباہ اور عمران خان کے تازہ اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید ہیجانی کیفیت ہوگی اور یقیناً دونوں اطراف سے اپنی اپنی بالادستی کے لیے ہر ممکن حد تک جایا جائے گا لیکن ملک و قوم کی سلامتی اور استحکام دونوں کے مدنظررہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کے فیصلے کو عمران خان کی تائید حاصل ہوگی جبکہ دوسری طرف بلاول بھٹو صدرمملکت کومتنبہ کررہے ہیں لہٰذا یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاست میں ہیجان ابھی شروع ہونے والا ہے اور دونوں اطراف سے پوری پوری تیاریاں کی جارہی ہیں، اگر اگلا لائحہ عمل اسلام آباد کی طرح روانگی کا ہوتا ہے تو اسلام آباد میں سکیورٹی فورسز پہلے ہی لانگ مارچ کو روکنے کے لیے تعینات کی جاچکی ہیں پس سکیورٹی فورسز اور لوگوں کے مابین تصادم کے خطرات ہوں گے اور یہی خدشات ہر سنجیدہ پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کئے ہوئے ہیں کہ ضد اور انائیں کہیں ملک وقوم کونئے امتحان میں نہ ڈال دیں اور پھر پچھتاوے کے سوا سبھی کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے، سیاست دان ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں لہٰذا متوقع حالات کا قبل ازوقت ادراک کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے کسی کو پہل کرنی چاہیے کیونکہ ماضی کی غلطیوں اور اِن کے نتائج یقیناً ہم میں سے کوئی نہیں بھولا پس درمیان راہ نکالنا اشد ضروری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پوری قوم بے چینی کا شکار ہے، بیرونی سرمایہ کار بھی موجودہ حالات میں سرمایہ کاری کرنےسے گریزاں ہیں، مقامی انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے اورعام پاکستانی بے شمار مسائل میں الجھ کر رہ گیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو بطور ذمہ دار شخصیت یقینی بنانا چاہیے کہ لانگ مارچ صرف اور صرف جمہوری دائرے میں رہے، کوئی کانچ ٹوٹے نہ کسی کو خراش آئے، نہ ہی دوسری طرف سے کوئی طیش دلانے کی کوشش کرے، کہ لمحہ موجود میں قیادت کا دل جیتنے سے زیادہ معاملہ فہمی کا ادراک ضروری ہے، کوئی بھی غیر سنجیدگی یا غلطی کسی بڑی غلطی کا پیشہ خیمہ یا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ سیاسی قائدین کو ایک بار ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کو بھی دیکھنا چاہیے شاید سمجھ آجائے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں پنپ نہیں سکی اور ملک و قوم کیوں ترقی پذیر اور بے حال ہیں پس عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ اُن تمام غلطیوں سے بچا جائے جو سیاسی لوگوں کی مقبولیت میں کمی اور حالات کی خرابی کا باعث بنتی ہیں، ہم توقع رکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ویسا نہیں ہوگا جیسے دعوے کیے جارہے ہیں بلکہ لانگ مارچ جمہوری طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچے گا اور طرفین بھی سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے کسی نقطے پر متفق ہوں گے، یقیناً یہی اُن کے بھی مفاد میں ہے اور ملک و قوم کے بھی، وگرنہ حالات خرابی کی طرف جائیں گے جس کے ہم قطعی متحمل نہیں ہوسکتے۔ ملکی اور سیاسی حالات دیکھتے ہوئے سنجیدگی اور تشویش میں اضافہ ہونا فطری ہے کیونکہ معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے دکھائی دے رہے ہیں،طرفین سے پیش قدمی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور کوئی بھی قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں۔ عمران خان اوران کے کارکن اطراف سے اسلام آباد کی طرف منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بڑھیں گے اور ہرلمحے کے ساتھ اُن پاکستانیوں کی تشویش میں اضافہ ہوگا جو ملک میں سیاسی استحکام اور ترقی و خوشحالی دیکھنے کے ہمیشہ سے منتظر رہے ہیں لیکن انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وطن عزیز کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز ہمہ وقت سیاسی قیادت مدنظر رکھ کر اپنے لائحہ عمل طے کرے اسی میں سیاسی نظام اور ملک و قوم کی بھلائی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button