ColumnNasir Sherazi

قیامت کی گھڑی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

سترکی دہائی پاکستانی فلم انڈسٹری کے عروج کا زمانہ تھا، نصف درج ہیرو اور اتنی ہی تعداد ہیروئینز کی تھی، رقاصائیں درجن بھر تھیں جن کے ہوش ربا رقص فلم کا اہم جزو سمجھے جاتے تھے،کامیڈین کم تھے، اچھے فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اورموسیقار ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ سال میں سو کے قریب فلمیںتیار ہوکر مارکیٹ میں آتیں زیادہ تر کامیاب رہتیں، پھر اردو فلموں کی تعداد کم اور پنجابی فلموںکی تعداد بڑھنے لگی، وحید مراد جیسے اردو فلموںکے کامیاب ترین اور مقبول ترین ہیرو کو پنجابی فلم میں کاسٹ کیا گیا فلم تو پیسے پورے کرگئی لیکن یہیںسے فلم انڈسٹری کا زوال شروع ہوگیا، جسے کسی نے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔فلم بشیرا کی شکل میں فلم انڈسٹری کو سلطان راہی اور گنڈاسہ ملا جو بیس سال تک چلتا رہا، فلم بینوں کا حوصلہ کہ انہوںنے سلطان راہی کو اس ایک ہی کردار میں قریباً دو سو فلموں میں برداشت کیا،یہ فلم بین کم اور تماش بین زیادہ تھے، وہ من پسند ہیروئن کے ٹھمکے اور اس پر فلمائے گئے گیت دیکھ کر ہی خوش ہوجاتے تھے،پھر ایک وقت آیا جب فلم میں کچھ نہ ہوتا تھا سوائے بارش میں بھیگتی اورناچتی ہیروئن کے، ہیرو کا کام بھی پلٹنے، لپکنے، جھپٹنے اور ملنے تک رہ گیاتھا، فلم میں اورکچھ نہ رہا،وقت نے ایک کروٹ بدلی یہ سب کچھ وی سی آر پر زیادہ سہولت سے دیکھا جاسکتا تھا لہٰذاسنیما گھرویران ہوگئے، آج تک ویران ہیں اور طویل عرصہ ویران ہی رہیں گے۔
جس طرح فلموں کی ایک کہانی دیکھ دیکھ کر فلم بین اکتاگئے تھے، اسی طرح گذشتہ چھبیس برس سے ایک ہی تقریر سن سن کر سیاسی سپاہ میں اب بیزاری اور اکتاہٹ کے آثار نظر آنے لگے ہیں، سیاسی فلم اپنی مقبولیت کھوچکی ہے۔سیاسی فلم بین جو کچھ وہاں دیکھنے جاتے ہیں اب وہ سب کچھ گھر بیٹھے نیٹ پر زیادہ سہولت کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے بلکہ سیاسی شخصیات کی اصلی یا نقلی فلمیں زیادہ مقبولیت حاصل کررہی ہیں، نئے کلپس کا بے چینی سے انتظارکیا جاتا ہے، فلم بین فلم کا پہلا شو دیکھ کر فیصلہ کرتے فلم پاس ہے یا فیل۔اسی طرح نیا کلپ دیکھنے کے بعد، دیکھنے والے ماہرانہ رائے دیتے ہیں کہ کلپ اصلی ہے یا نقلی۔
سیاسی فلموں میں میوزک بھی کافی پرانا چل رہا ہے لہٰذا اب اس میں بھی کوئی کشش نہیںرہی،فلم کا ہیرو گذشتہ نو ماہ سے گنڈاسہ اٹھائے بڑھکیں مار مارکر تھک چکا ہے، لگتا ہے اب اس سے گنڈاسہ نہیں اٹھایا جارہا اس کی بڑھک سن کر مخالفین میدان سے نہیں بھاگتے ان کی ثابت قدمی دیکھ کر ہیرو گنڈاسہ پر کپڑا لپیٹ کر خود ہی میدان چھوڑ دیتا ہے، وہ جاتے جاتے نئے میدان اورنئی تاریخ کا اعلان کرتا ہے لیکن ہر مرتبہ پسپائی اختیار کرتا ہے19نومبر کو لگنے والی فلم فلاپ ہوگئی اب اسے نئے فوٹو سیٹ ،نئے سنیما میں 26نومبر کوریلیف کرنے کا پروگرام سامنے آیا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیںفلم کا ایک ہی شو ہوگا اس سے زیادہ فلمساز و ہدایت کار کے وسائل نہیں ہیں،کوشش ہوگی کہ مار دھاڑ ہو کچھ خون بہے کچھ لاشیں گریں تاکہ دعویٰ کیا جاسکے کہ کہانی میں بہت جان تھی فلم کو بہت پسند کیا گیا، فلم کی کامیابی میں ریلیز کا دن، موسم اور وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے،فیچر فلمیںریلیز کرتے وقت اس کا خیال رکھا جاتا تھا، ماہ رمضان یاایام محرم میںکبھی نئی فلم ریلیز نہیں کی جاتی اسی طرح موسم برسات میں نئی فلم لگے تو فلم بین بہت کم آتے ہیں،نئی سیاسی فلم کی ریلیز ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب امریکہ دشمنی کی کہانی پٹ چکی ہے، اب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہارکیا جارہا ہے، مرضی کی تاریخ پر الیکشن کے لیے بھرپور زور لگایا گیا ہے اس میں ناکامی ہوئی ،پسند کی شخصیت کوحساس ادارے کا سربراہ مقرر کرنے کے لیے مشاورت میں شامل ہونے کے لیے ہر طریقہ آزمایا گیا کامیابی نہ ملی، گنڈاسے کے زور پر حکومت کو گھر بھیجنے کے جتن کرکے دیکھے کچھ ہاتھ نہ آیا، یہاںتک کہہ دیا گیا کہ اب اہم ترین تقرر سے دست کش ہوتے ہیں حکومت جو چاہے جب چاہے اپنا اختیار استعمال کرے، راہ راست یہی تھا یہاںتک پہنچنے کے لیے بھٹکنا ضروری نہ تھا لیکن اسے ضروری سمجھاگیا، ساتھ چلنے والے اب ایک سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ بادشاہ سلامت کو بھٹکنے کا شوق تھا لیکن قوم کوکیوں بھٹکایاگیا۔
26نومبر تک سیاسی مطلع صاف ہوچکا ہوگا، نئی ذمہ داریاں سنبھالنے والوں کے ناموں کا اعلان ہوچکا ہوگا،30نومبر کو اعلیٰ ترین کمانڈتبدیل ہوجائے گی، لیکن یہ سب کچھ شاید اتنی آسانی سے نہ ہو جتنی آسانی سے میں نے تحریر کردیا، رنگ میںبھنگ ڈالنے والی قوتیں آخری لمحات تک اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔
نئی سیاسی فلم کے فلاپ ہونے میں توشہ خانہ سے نکلوائے گئے تحائف والا معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ایک مخصوص رقم کے عوض بیش قیمت تحائف کا حصول جو غیرقانونی نہ تھا لیکن اس سے جڑی دیگر تفصیلات سامنے آرہی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ اتناشفاف نہیں جتنا بتایا جاتا تھا، چوری اورسینہ زوری کی طویل داستان ہے،جس میں کئی پاک دامن،نیک نیت اور باکمال و صاحب کردار حضرات کے کردار سے پردہ اٹھتا ہے،نیک نیتی اور جذبہ خیر سگالی کے تحت دیئے گئے تحائف کا جو حشرکیاگیا ہے، دنیا بھر اب پاکستانی سربراہ مملکت کو بیش قیمت تحفے دینے سے قبل سو مرتبہ سوچے تو وہ ایسا سوچنے میں حق بجانب ہوگی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے میدان سیاست میں قدم رکھا، ابتدا میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی، پہلا انتخابی معرکہ ہواتو ان کی جماعت کو فقط ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل ہوئی بعد ازاں یہ تعداد بڑھی، ان کے مخالفین نے ان پر دو اعتراضات کئے اول ان کی پہچان کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ’’پلے بوائے‘‘ کی تھی دوسرا وہ حقیقی پٹھان نہیں بلکہ بناسپتی پٹھان ہیں ،عمران خان کاتعلق برکی قبیلے سے ہے،ان کے چاہنے والے انہیں حقیقی پٹھان ان کے مخالفین انہیں جعلی پٹھان کہتے ہیں، تمام تر مخالفتوں کے باوجود وہ وزیراعظم پاکستان بننے میں کامیاب ہوگئے، خلائی مخلوق نے تسلیم کیا کہ وہ ان کی مدد سے وزیراعظم بنے جبکہ نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے کے ایام میں سب سے پہلے جناب جاوید ہاشمی نے یہ راز فاش کیا ہر ہدایت ’’ان‘‘ سے لی جارہی ہے، وہ ان پر سیخ پا بھی ہوئے بعد ازاں علیحدہ ہوگئے۔
عمران خان نے سعودی ولی عہد سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ سے حاصل کئے، گھڑی، کف لنکس اور انگوٹھی کی قیمت ایک ارب ستر کروڑ روپے تھی، دبئی کی ایک کاروباری شخصیت سے ان کی فروخت کے معاملات طے ہوئے، فرح گوگی نے انکی قیمت پچاس لاکھ ڈالر طلب کی تھی حتمی سودا بیس لاکھ ڈالر میں طے ہوا، ادائیگی نقد کی گئی، رقم کس اکائونٹ میں اور کیوںڈالی گئی یہ ابھی راز ہے لیکن اس سودے سے ایک بات کی تصدیق ہوئی کہ عمران خان بناسپتی نہیں بلکہ خالص پٹھان ہے،سعودی ولی عہد کی طرف سے خان کو دی گئی گھڑی اپنی نوعیت کی قیمتی ترین گھڑی ہے، لیکن آج خان پر قیامت کی گھڑی ہے، ایسی قیامت کی گھڑیاں کچھ اور دنوں تک سامنے آئیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button