Editorial

عمران خان پر قاتلانہ حملہ !

 

سابق وزیراعظم عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی کال پرملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ گذشتہ روز بھی جاری رہا۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور جلد از جلد صحت یاب ہوکر اپنا لانگ مارچ جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے معالجین نے ابھی انہیں اجازت نہیں دی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی نہ صرف اندرون ملک، بلکہ دنیا بھر سے شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ گرفتارملزم کا بیان محض ڈرامہ ہے،معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عمران خان اور دیگر رفقاء محفوظ رہے۔ تحقیقات میں اصل محرکات سامنے لائے جائیں گے۔ ملزم کی ویڈیولیک کرنے والے پورے تھانے کو معطل کر کے عملے کے فون ضبط کر لئے ہیں اورموبائل فونز کا فرانزک آڈٹ ہورہاہے، رابطہ کاروں کا جلد پتہ چل جائے گا۔کابینہ نے فائرنگ کرنے والے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے عزم کا اعادہ کیاہے، اسی دوران ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے کابینہ کو انکوائری کی ابتدائی رپورٹ پیش کی۔ عمران خان پر جمعرات کے روزگوجرانوالہ کے علاقے وزیرآباد میں فائرنگ کی گئی، ملزم کی فائرنگ سے ایک کارکن جاں بحق ہوا جبکہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دس کے لگ بھگ رہنما اور کارکنان زخمی ہوئے اور مقام شکر ہے کہ ماسوائے ایک فرد کے جانی نقصان کے، سبھی محفوظ ہیں اور ان کا پوری توجہ کے ساتھ علاج معالجہ کیاجارہا ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملہ آور دو افراد تھے، ایک کو موقع سے گرفتارکرلیاگیا جبکہ دوسرا فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا جس کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ عمران خان پر جان لیوا حملے کی کوشش کی سیاسی قیادت نے شدید مذمت کی ہے، غرضیکہ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس نے اِس افسوس ناک واقعے کی مذمت نہ کی ہو۔ تحقیقاتی ادارے اِس مذموم کارروائی کے محرکات تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر طرف سے اِس واقعے کے محرکات کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ عمران خان اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد مقبولیت کی بلندیوں کو چھورہے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے سیاسی مخالفین اور ناقدین بھی عمران خان کی مقبولیت کا اعتراف کرتے ہیں، اِس لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے اور اِس میں تمام پہلوئوں، خدشات اور امکانات کا احاطہ کیا جانا چاہیے تاکہ اصل صورت حال قوم کے سامنے آسکے اور اس واقعے کی تحقیقات کا انجام ویسا نہ ہو جیسا ہمارے ماضی کے مقبول ترین قائدین کے قتل کی تحقیقات کا ہوا۔ وزیراعظم نواب زدہ لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کیاگیااور اُن کے قاتل افغان شہری کو موقع پر گولی مارکر پس پردہ عناصر تک پہنچنے کا امکان ہی ختم کردیاگیا۔ بے نظیر بھٹو بھی اسی میدان میں شہید کر دی گئیںمگر آج تک ان کے پس پردہ قاتلوں کو منظر عام پر نہیں لایا جاسکایہی نہیںشہید بینظیر بھٹو پر جتنے جان لیوا حملے ہوئے ان میں ملوث عناصر سامنے نہ لائے جاسکے۔ اسی طرح صف اول کی سیاسی قیادت پر بھی کئی بار حملے ہوئے لیکن نجانے کیوں معاملہ دب گیا اور مقتولین کے ورثا بھی بااختیار ہونے کے باوجود اِس معاملے پر بے اختیار رہے لیکن عمران خان پر جان لیوا حملے کے محرکات کا منظر عام پر لایاجانا انتہائی ضروری ہے اور تحقیقات کی شفافیت اور معیار ایسا ہونا چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ یہ امر خفیہ نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہوری رویوں کا کیا معیار ہے، جمہوری اقدار کے فقدان کی مثالیں جو یہاں ملتی ہیں پوری دنیا میں نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ ہم جمہوریت کی اصل روح تک پہنچ سکے اور نہ ہی قوم کو جمہوری عمل کے آج تک ثمرات مل سکے ہیں۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے احترام کی ہماری جمہوریت میں کبھی بھی گنجائش نہیں رہی۔ عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی برسراقتدار آتی ہے تواِس کا حصہ نہ بننے والی سیاسی پارٹیاں بقیہ پارٹیوں کی قیادت کرتے ہوئے برسراقتدار کے خلاف سڑکوں پر آجاتے ہیں اور تب تک سڑکوں پر رہتے ہیں جب تک حکمران سیاسی جماعت کو گھر نہ بھیج دیں۔اِس کے لیے سال کے 365 دن مختص رہتے ہیں، چاروں موسموں کی پرواہ ہوتی ہے نہ ہی کسی جان لیوا وبا کا خوف، بس حکومت کو دبائو میں لاکر گھر بھیجنا ہی مقصد ہوتا ہے ، یہ رویہ ہی سیاسی نظام کے خاتمے کا بیج بنتا رہا ہے اور بلاشبہ میثاق جمہوریت کے باوجود آج تک یہی رویہ نظر آتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جماعتیں روز اول سے سڑکوں پر رہیں پس آج عمران خان سڑکوں پر ہیں۔ ہماری سیاست میں عدم برداشت کی مثالیں بیان کی جائیں تو شاید الفاظ کم پڑ جائیں ، اِس لیے فقط یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ملک میں اگر جمہوریت ڈی ریل ہوتی رہی ہے تو اِس کے ذمے دار بھی وہی ہیں جو جمہوریت کے علمبردار ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اگر ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا تو ماضی میں جمہوریت پر کیوں شب خون مارا جاتا۔ کیوں محلاتی سازشیں ہوتیں اور ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے اپنائے جاتے۔ عمران خان پر جان لیوا حملہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا ، اللہ تعالیٰ سبھی کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائے اور شائستگی سے عاری بیانات کے ذریعے سیاسی ماحول کو گرمانے کی بجائے مثبت طرز عمل کے ساتھ سیاست کی جائے تو ہی ہم حادثات اور بری خبروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی قیادت کو اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لانی چاہیے اور ایسی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں انتشار پھیلے اور عوام مزید تقسیم کا شکار ہوکر مدمقابل آئیں۔ ہم وطن عزیز میں جلد ازجلد سیاسی استحکام کے لیے دعا گو ہیں کیونکہ ہم مزید انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یا تو ہم سیاسی مسائل میں الجھ کر دائو پیچ کی طرف متوجہ رہیں اور جیسے ملک چل رہا ہے چلتا رہے یا پھر ہم خلوص نیت کے ساتھ سیاسی مسائل سے باہر نکل کر ملک کے داخلی و خارجی مسائل کی طرف متوجہ ہوں ۔ ہم ہمیشہ سے سیاسی قیادت سے یہی التماس کرتے رہے ہیں کہ افہام و تفہیم کے ساتھ بیٹھ کر ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کریں لیکن افسوس اِس کے برعکس صورتحال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے جو ملک و قوم سمیت کسی کے بھی مفاد میں نہیں، خصوصاً تشدد کے واقعات، جو بھلے سیاست میں ہوں یا عام حالات میں، قطعی قابل برداشت نہیں ہیں ، لیکن کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے ہیں اور باوجود محسوس کرنے کے، ابھی تک ہم معاشرے میں عدم برداشت اور قانون ہاتھ میں لینے کا رحجان محض اسی لیے ختم نہیں کرسکے کیونکہ جنہوں نے معاشرے کے سامنے خود کو رول ماڈل ظاہر کرنا ہے وہ خود ہی بسا اوقات اشتعال دلانے والی باتیں کرگذرتے ہیں، خصوصاً حالیہ لانگ مارچ کے دوران دونوں اطراف سے ایسے سخت بیانات داغے گئے ہیں جن کو اشتعال انگیز نہ کہاجائے تو اور کیا کہا جائے اور زیادہ افسوسناک تو ایسے بیانات کا تسلسل ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے بیانات کو نظریہ ضرورت کے تحت داغا جارہا ہے، جمہوری دور میں نشان عبرت بنانے یا ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں کیا ہیں؟ یہی نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو مذہبی معاملات میں بھی پھانسنے کے لیے ماضی قریب میں کوششیں کی جاتی رہیں حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کی کثیر تعداد مذہبی معاملات کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اِس معاملے پر کسی بھی نہج پر جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، پس سیاسی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سیاسی قیادت سے ملتمس رہے ہیں کہ خدارا ملک و قوم کے بہتر مفاد میں جمہوری عمل کو اُس کی اصل روح کے مطابق چلایا جائے جیسے مہذب معاشروں میں چلایاجاتا ہے لیکن افسوس سبھی اپنے اپنے اغراض و مقاصد کے مطابق جمہوری عمل کی تشریح بھی کرتے ہیں اور جمہوری عمل کو چلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جمہوریت ہمارے ہاں آج جس شکل میں موجود ہے اِس کو قطعی جمہوریت کا حُسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلاشبہ عمران خان شہرت کی بلندیوں پر ہیں ، بینظیر بھٹو بھی عالمگیر شخصیت تھیں اسی طرح خان لیاقت علی خان کا بھی اپنا مقام تھا، ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی پہچان خود تھے، پس ہم نے کیسے کیسے ہیرے کھودیئے غفلت میں۔ لہٰذا تشدد کسی بھی معاملے میں ہو قابل مذمت ہے۔ عمران خان پر حملہ سیاسی پستی کی مثال ہے اور اِس سے پہلے ہونے والے حملے بھی سیاسی پستی کی مثال تھے، اور ہم وزیردفاع خواجہ آصف کی اِس بات سے متفق ہیں کہ ہم اپنے سیاسی نظریے اور سیاسی پسند ناپسند کے لیے جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔مگر یہ خطرناک روش کو اب ختم کرنا ہوگا اور اس کے خاتمے کا آغاز سیاسی قیادت کو پہلے اپنی سطح پر کرنا ہوگا تبھی ایسے افسوس ناک واقعات کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button