Editorial

ڈو مور ….آئی ایم ایف کانیامطالبہ

 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )نے محصولات کی پیداوار میں صحت مند رفتار کے باوجود پاکستان سے قریباً 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے اور انسداد بدعنوانی ٹاسک فورس قائم کرنے پر پھر زور دیا ہے تاہم دوہرے ہندسے کی مہنگائی سے عوام میں مقبولیت میں کمی کی وجہ سے حکومتی اتحاد نے مطالبہ منظور نہیں کیا۔ اِس معاملے پر پروگرام کے نومبرمتوقع میں ہونے والے جائزہ مذاکرات کے اگلے دور میں بات کی جائے گی ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ پٹرولیم لیوی لگانے کے لیے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا رہے جس میں جنوری اور مارچ میں پچاس پچاس روپے فی لٹرلیوی نافذ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ حکومت پہلے ہی پٹرول پر زیادہ سے زیادہ حد کے قریب ہے لیکن اب اسے شرائط پر کاربند رہنے کے لیے اگلے ماہ سے ڈیزل پر ٹیکس بڑھانا پڑے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطالبے پر مزید بات کرنے سے پہلے پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان ڈیڑھ ارب ڈالر قرض کا پروگرام کے معاہدے پر بات کرتے ہیں کیونکہ اِس قرض سے پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور موجودہ اتحادی حکومت کی معاشی اصلاحات کو عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے سراہا بھی جارہا ہے کیونکہ حکومت معاشی مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک توانائی ، ٹرانسپورٹ ، زراعت ، قدرتی وسائل،دیہی ترقی،پانی کی فراہمی،شہری بنیادی ڈھانچہ اور خدمات، ادارہ جاتی اصلاحات اور مالیات کے شعبوں میں ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے مدد فراہم کرتا ہےاور بلاشبہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر قرض ان شعبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے صدر سے ملاقات میں اِس قرض کے حصول کے لیے وعدہ لیا تھا جس پر اب معاہدہ طے پاگیا ہے۔ اب ہم آئی ایم ایف کی طرف سے 600ارب روپے کے اضافی ٹیکس کے نفاذ کے مطالبے پر بات کرتے ہیں۔ اگرچہ ہماری حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات مکمل طور پر طے پانے کے بعد ہی آئی ایم ایف نے ہمیں حال ہی میں فنڈز جاری کیےتھے اور ہر شرط لکھت پڑھت میں موجود ہوگی کہ ہم قرض کے حصول کے لیے اپنے ملک میں معاشی اصلاحات کے نام پر کیا کچھ کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے نفاذ سے انکاری ہے کیونکہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں سمجھتی ہیں کہ پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط مان مان کر اِنہیں بے حد سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اُس کے نتیجے میں اُن کا ووٹ بینک
بھی متاثر ہوا ہے۔ پس ایف بی آر تو مزید ٹیکس تجویز نہیں کررہا اور اُن کے نزدیک جتنے ٹیکس جہاں سے جس مد میں بھی لیے جارہے ہیں وہ کافی ہیں تو پھر حکومت کےپاس کونسا راستہ باقی رہ جائے گا جس پر عمل کرکے 600ارب روپے کے اضافے ٹیکسوں کی شرط پوری کی جائے گی، طوعاً وکرہاً ڈیزل پر ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی ہی واحد راستہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ حکومتی اتحاد معاشی اصلاحات کے نام پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں اپنے ووٹ بینک اور عوامی مقبولیت میں واضح کمی کا بخوبی ادراک رکھتا ہے اور اِس حقیقت کا برملا اعتراف بھی کیا جارہا ہے لیکن موجودہ حالات کو جوں کے توں رکھنے سے بھی تو ووٹ بینک بڑھے گا اور نہ ہی مقبولیت میں اضافہ بلکہ شاید اِس کے برعکس ہو کیونکہ پاکستان کے عامۃ الناس اِس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر مہنگائی کو دیکھ رہے ہیں، اگر معاشی اصلاحات کی منظر کشی پہلے عوام کے سامنے رکھ دی جاتی تو شاید آج کایا مختلف ہوتی۔ سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں آج اشیائے خورونوش و عام استعمال کی قیمتیں نصف سے زائد بلکہ کئی مصنوعات تو اِس سے بھی زیادہ مہنگی ہوچکی ہیں پس ایسا بھی نہیں کہ موجودہ قیادت اور اِس کی معاشی ٹیم کو برسراقتدار آنے کے بعد درپیش معاشی چیلنجز اور اُن کے اثرات کا ادراک نہ ہو ، یقیناً تب ضرور سوچا ہوگا کہ جب مہنگائی ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گی تو عوام کو ریلیف کیسے اور کس مد میں دیا جائے گا جس کے نتیجے میں اُن کی سیاسی مقبولیت اور ووٹ بینک میں دوبارہ اضافہ ہو، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ حکومتی معاشی ماہرین اپنے تجربے سے ایسی راہ نکالیں جس کے نتیجے میں اتحادی جماعتوں کی مقبولیت دوبارہ بحال ہونا شروع ہوجائے اور عوام بھی معاشی بحران سے باہر نکل کر سانس لے سکیں۔ بظاہر تو پٹرول اور بجلی کی قیمت ناقابل برداشت حد تک بڑھاکر حکومت نے اپنی معاشی صحت ٹھیک کرلی ہے لیکن اِس کے نتیجے میں عوام اور ملکی انڈسٹری بری طرح لاغر ہوگئے ہیں، عام شہری گھریلو اشیا بیچ کر بجلی کے بل جمع کرارہے ہیں جبکہ انڈسٹریز مہنگی ترین بجلی اور مہنگی گیس اور بے شمار ٹیکسوں کے ساتھ عالمی منڈی میں جگہ لینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ صورت حال تو اب اس مصداق بن چکی ہے کہ سر پر کمبل اوڑھیں تو پیر ننگے، پیر وں پر لیں تو سر ننگا۔ بجلی مہنگی اور ٹیکس زیادہ کریں تو انڈسٹری نہیں چلتی کم کریں تو آئی ایم ایف آنکھیں دکھاتا ہے ، کوئی معجزہ ہوجائے تو الگ بات ، وگرنہ ایک انار سو بیمار والی صورت حال ہے، قرض لینا اور لیتے رہنا ہی معاشی حل نہیں اپنے وسائل بڑھانا اور اخراجات کم کرنا بھی حل ہوسکتے ہیں، اب تو قرض دینے والے بھی لکیریں نکلواتے ہیں اور درحقیقت قرض ملتے ہی عوام کی لکیریں نکلوانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن کوئی پہل کرنے کو تیار نہیں پس دیکھتے رہیں اور سنتے رہیں اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button